CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Tuesday, February 20, 2018

AITRAZ : KYA JANNAT ME SIRF MUSALMAN JAENGE?





تحریر : فیصل کنگ
کچھ دنوں سے ملحدوں کی طرف سے قران کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 62 کو بہت زیادہ مسلمانوں کو دکھا دکھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ
آپ مسلمان جنت کے ٹھیکیدار نہ بنیں
کیوں کہ آپ ہی کا رب قرآن میں فرما رہا ہے کہ
"
جس انسان نے نیک اعمال کیے، چاہے وہ یہودی ہے، عیسائی ہے، صابی ہے، ہندو ہے، جو کوئی بھی ہے
اگر وہ انسان ہے اور نیک کام کرتا ہے اللہ کو مانتے ہوئے تو وہ جنت میں جائے گا"
پہلا سوال میرا یہ ہے کہ جب آپ لوگ رب کو مانتے ہی نہیں تو پھر یہ اعتراض فضول ہے
دوسرا سوال میرا یہ ہے کہ جب آپ رب کو مانتے ہی نہیں تو پھر رب کی بنائی ہوئی جنت اور جہنم پہ یقین کیوں ؟
تیسرا سوال میرا یہ ہے کہ جب جنت اور جہنم ہے ہی نہیں تو پھر مسلمان اگر جنت کا ٹھیکیدار بنتا ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہے
کیونکہ اگر رب نہیں ہے
تو پھر رب کی بنائی ہوئی جنت اور جہنم بھی نہیں ہے
(
مسلمان کو جنت کا ٹھیکیدار میرے رب نے خود بنایا ہے، ہر مسلمان کو رب نے جنت کا باقاعدہ ٹکٹ جاری کیا ہوا ہے اور یہ میں آگے چل کے آپ کو قرآن سے ہی ثابت کر کے دونگا )
چوتھا سوال میرا یہ ہے کہ ایک طرف آپ کہتے ہو کہ قران اللہ کا کلام نہیں ہے
تو جب قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے
تو پھر اسی قرآن کی آیت سے دوسرے مذاہب والوں کو جنت کا ٹھیکیدار بنانا
منافقت نہیں تو اور کیا ہے ؟
ایک بات تو ماننی پڑے گی،
جو چیز کائنات میں نہیں ہے
اس پہ بحث تو بہت دور کی بات ہے
اس بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا
انسان صرف اسی چیز کے بارے میں سوچ سکتا ہے، بحث کرتا ہے اور کرسکتا ہے
جو کائنات میں موجود ہے
ملحد کہتا ہے کہ اللہ نہیں ہے
لیکن سب سے زیادہ بحث بھی اس ( اللہ ) کے وجود پہ کرتا ہے، ( کیا ثابت ہوا ؟ )
ملحد کہتا ہے کہ جنت اور جہنم کا کوئی وجود نہیں
لیکن سب سے زیادہ بحث بھی جنت اور جہنم پہ کرتا ہے ( کیا ثابت ہوا ؟ )
آدھا نہیں پورا سوچو
اب آتے ہیں جواب کی طرف
یہ وہ آیت ہے جس کو بنیاد بنا کر ملحد تمام مذاہب کو جنت کا ٹھیکیدار بناتا ہے
Surat No 2 : Ayat No 62
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۶۲
یقیناجو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور عیسائی اور صابی، جو کوئی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نیک کام کیے، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اس آیت کا شان نزول :
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم )
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں
حضرت سلمان کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی
یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو تورات کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام پہ عمل پیرا ہو
لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آجائیں تو اس کے باوجود بھی یہود حضرت عیسی علیہ سلام کی تابعداری نہ کریں تو پھر بےدین ہو جائیں گے.
نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پالے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا.
مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا، لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ پھر بھی انکار کرے اور اپنے پچھلے نبی کی تابعداری کو چھوڑ کر اپنے زمانے میں آنے والے نبی کی تابعداری نہ کرے
تو کافر ہو جائے گا.
کیونکہ ہر نبی کو اللہ پاک نے کسی نہ کسی قوم کو راہ راست پہ لانے کے لیے بھیجا ہے
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے
اس لیے آپ کی اطاعت ہر انسان پہ فرض ہے
اور جو آپ کے اطاعت نہیں کرے گا
وہ قرآن کے مطابق جہنمی ہے،
ان دو ٹکے کے ملحدوں کو ایک ٹکے کا علم بھی نہیں ہے
بس جہاں کوئی آیت دیکھی
(
قرآن کو نہ ماننے کے باوجود بھی)
اس کو نہ انہوں نے سمجھنا ہوتا ہے
نہ اسے دیکھنا ہوتا ہے کہ
اس آیت کا کیا مطلب ہے
یہ آیت کب نازل ہوئی ؟
اس کا شان نزول کیا ہے ؟
بس جو بھی ان کو مسلمانوں کے خلاف نظر آتا ہے
ان کا کام ہوتا ہے بس اس کو اٹھانا اور لگا دینا
اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی کم علم دین اسلام سے پھرے گا اور ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا
مگر افسوس بدلے میں ایسے ایسے لتر پڑتے ہیں
اور کہاں کہاں سے پڑتے ہیں اور کدھر کدھر لگتے ہیں ؟
کچھ یاد نہیں رہتا
بس پھر ان کا کام ہوتا ہے
دفعہ ہوجانا
اور جب زخم ٹھنڈے ہوجائیں تو ایک نئے اعتراض کے ساتھ اپنے زخموں کو نمک لگا کے گرم کروانے کے لیے دوبارہ حاضر ہوجانا
اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے
ملحدوں!
قرآن کی جو آیت آپ نے پیش کی اور اس سے تمام مذاہب والوں کو جنت کا ٹھیکیدار بنانے کی ناکام کوشش کی
آپ کی یہ محنت تو ہوگئی ظائع
اب میں آپ کو اسی قران سے یہ ثابت کر دیتا ہوں کہ
صرف مسلمان جنت کا ٹھیکیدار ہے
اور ماننا آپ کو پڑے گا
کیونکہ یہ بھی قران کی ہی آیت ہے
نہ مانو گے تو منافقت ہوگی
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
Surat No 3 : Ayat No 85
وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵
اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
مطلب کہ، کسی شخص کا کوئی عمل، کوئی طریقہ قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے کہ جب آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی پابندی شرط تھی
جی ملحد باندروں
گلاٹیاں مارنا شروع کردو
قرآن خود کہتا ہے کہ مسلمان جنت کا ٹھیکیدار ہے
اور جس نے
اللہ کو ایک،
محمد پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی،
قرآن کو اللہ کا کلام مانا،
وہ جنت کا ٹھیکیدار بن گیا
اس کو جنت ملے گی
اور باقی مذاہب کا اللہ پاک نے دنیا میں ہی واضع کر دیا ہے
کہ "جہنمی" ہیں
(
لفظ "جہنمی" مینشن کر دیا ہے تاکہ ملحدوں کو واضع نظر آجائے اور دوبارہ اعتراض کا جواز باقی نہ رہے)
اس سے واضع پیغام اور کیا ہوگا ؟
اس لیے پیارے پیارے ابن باندرو!
قیامت کے دن جنت کے حقدار بننے کی کوشش نہ کرنا
ورنہ لتر ہی پڑنے ہیں
مجھے لگتا ہے کہ شائد ملحد باندروں نے یہ آیت پڑھی ہی نہیں
اگر پڑھی ہوتی تو اعتراض کرنے سے پہلے سوچ لیتے کہ جواب میں بےعزتی ہی ہونی ہے
اس لیے چپ رہنا ہی بہتر ہے
مجھے امید ہے کہ آپ کو ٹھیک طرح سمجھ آگئی ہوگی
ویسے تو دو دماغ ہیں
جلدی سمجھ آجانی چاہیئے
سوری
دوسرا دماغ صرف دم ہلانے کے لیے ہے شائد
کوئی بات نہیں
ہمارا بھی ایک ہی دماغ ہے
ہمیں سمجھ آجاتی ہے
آپ کو بھی آجانی چاہیئے
اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو
میرا مشورہ ہے کہ
آپ POGO دیکھو
اور کھل کے جیو https://static.xx.fbcdn.net/images/emoji.php/v9/f57/1/16/1f609.png😉
نوٹ : جس بندے کو ملحدوں سے ہمدردی ہے
اس گمنام ہمدرد انسان سے میری گزارش ہے کہ
مہربانی فرما کے اس ہمدردی کے میٹھے بول کو کامنٹ باکس میں ٹرانسفر کرنے سے پرہیز کریں
کیونکہ،
بہت ہوگئی ہمدردی
سمجھایا اس کو جاتا ہے جو سمجھنے کے لیے اپنے دماغ کو ہوا لگواتا ہو
سمجھایا اس کو جاتا ہے جس کا دماغ سامنے والے کے ٹھوس دلائل کو قبول کرتا ہو
ملحدوں کو ان کے ہر اعتراض کا جواب دیا جاچکا ہے
اب صرف چھترول ہوگی صرف چھترول
ساتھ میں تھوڑی تھوڑی ڈھولکی بھی بجائی جائے گی https://static.xx.fbcdn.net/images/emoji.php/v9/fd0/1/16/1f602.png😂
تاکہ ملحدوں کو لتر کھانے میں مزہ آئے
اور ہمیں مارنے میں مزہ آئے https://static.xx.fbcdn.net/images/emoji.php/v9/f57/1/16/1f609.png😉https://static.xx.fbcdn.net/images/emoji.php/v9/f57/1/16/1f609.png😉https://static.xx.fbcdn.net/images/emoji.php/v9/f57/1/16/1f609.png😉
حاضر ہونگے باندروں کے ایک نئے اعتراض کے جواب کے ساتھ
تب تک کے لیے فیصل کنگ کو اجازت دیجیئے
اللہ نگہبان
میرا کام ہے سمجھا دینا
عمل کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی.




Saturday, January 7, 2017

AITRAAZ : KYA QURAN ME 10 BAAR DHOOD CHUSNA UTRA HAI ( MASLA-RAZAAT)










کیا قرآن میں آیت رضاعت موجود تھی ؟

حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ)سے مروی ایک حدیث جو کہ پانچ بار دودھ پلانے کے بارے میں ہے اس سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ آیات جو اس امر میں نازل ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک پڑھی جاتی تھی پھر بعد میں ان آیات کو تاریخی قرآنی مسودات میں سے کسی میں نہیں پایا گیا۔
الحدیث” عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنْ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ فِيمَا يُقْرَأُ مِنْ الْقُرْآنِ
حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ”اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔“( صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضاعت، حدیث: ۳۵۹۷)
اس روایت یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ آیات آپ ﷺ کے بعد کھو گئی تھی۔ ہم اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
خبر واحد اور قرآن : اگرچہ اس کے راوی قابل بھروسہ ہیں لیکن بات جب قرآن مجید کے متعلق ہوتوکسی چیز کے قرآن کا حصہ ہونے کے ثبوت کیلئے متواتر روایتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔جبکہ موجودہ صورتحال میں ایسانھیں ھے۔اس حدیث کو اس انداز میں حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ)سے صرف ایک راوی نے روایت کیا ہے ۔ امام نووی صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ۔”قرآن کے بارے کسی بات کو خبر واحد سے ثابت نہیں کیاجاسکتا”(شرح النووی183/5)۔
وہ الفاظ جوسب سے ذیادہ ہمارا دھیان کھینچتے ہیں یہ ہیں:” اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے “۔
اگر ہم حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ)سے مروی اس متعلق باقی روایتوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف عبداللہ بن ابی بکر ہی نے ان الفاظ کا استعمال کیا۔جبکہ دوسرے راویوں قاسم بن محمد اور یحیی بن سعید نے یہی حدیث روایت کی اور اس میں ان الفاظ(جب آپﷺ کی وفات ہوئی ان آیات کی تلاوت کی جاتی تھی) کا کوئی ذکر نہیں کیا۔اورحقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں عبد الرحمان بن ابی بکر سے ذیادہ قابل بھروسہ اور مستند ہیں جیسا کہ امام طحاوی نے لکھا ہے ۔ دیکھیے (مشکل آثار 171/10)۔
اسی لیے محققین نے لکھا کہ یہ عبداللہ بن ابی بکر کا اپنا وہم ۔امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں”یہ بات ہمیں عبداللہ بن ابی بکر کے علاوہ کسی پتا نہیں چلتی اور ہمارے نزدیک یہ انکا اپنا وہم ہوسکتا ہے ۔ “( مشکل الاثار 5/73 حدیث 1740)۔
شیخ ابن عربی ؒ نے بھی اسے راوی کا وہم قرار دیا ہے۔ (Aardha al- Ahwazi 5/92)
درحقیقت پانچ بار دودھ والا حکم بھی منسوخ ہو گیا تھا:
اس بارے میں باقاعدہ ثبوت موجود ہیں کہ اس آیت(پانچ بار دودھ پلانے سے نکاح کا حرام ہونا) کی تلاوت اورحکم دونوں آپﷺ کی حیات طیبہ میں ہی منسوخ ہو گئے تھے۔
حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے” لقد كان في كتاب الله عزوجل عشر رضعات ، ثم رد ذلك إلى خمس ، ولكن من كتاب الله ما قبض مع النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: دس رضعات سے حرمت ثابت ہونے کا ذکر قرآن میں موجود تھا پھر اسے پانچ سے بدل دیا گیا اور پھر کچھ نہیں تھا مگر وہ آپﷺ کی موجودگی میں منسوخ ہوگیا تھا ۔(مصنف عبدالرازق ،حدیث 13928)
شیخ تقی عثمانی لکھتے ہیں،” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بتاتی ہے کہ یہ پانچ رضعات والی آیت آپﷺ کی وفات سے پہلے ہی منسوخ ہو چکی تھی”(تکملہ فتح الملہم 46/1)۔
یہی سچ ہے کیونکہ ۔ حضرت عائشہ ( رضی اللہ تعالی عنہا ) کا وصال 57ھ میں ہوا جبکہ قرآن مجید کی سرکاری سطح پر تدوین اور نشر و اشاعت باقاعدہ اہتمام ان کے والد محترم اور خلیفۃ الرسول حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ تعالی عنہ (م 13ھ)) نے فرمایا اور اس کے بعد حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالی عنہ (م 35ھ)) کے عہد خلافت میں ایک دوسرے پہلو سے قرآن کی تدوین کا کام ہوا۔ یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ انھوں نے ان دونوں مواقع پر ” تدوین قرآن کمیٹی ” کو اس آیت سے غافل ہی رکھا ہو؟ اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) کا قرآن و حدیث کے علم کے معاملے میں صحابہ میں بہت اونچا مقام تھا۔اور ہم یہ بھی جانتے ھیں کہ کچھ کافی مشہور قرآتیں آپ سے منسوب(مروی) ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی ایسے الفاظ موجود نہیں ۔ یہی وجہ ھے کہ علماء کے نزدیک یہ الفاظ محض راوی کا گمان اور غلط فہمی ہے ۔
اگر یہ آیت موجود ہوتی تو اسکا علم ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہونا چاہیئے تھا اور قرآن مجید کا ایک اہم حکم ہونے کی وجہ سے اس کی شہرت عام ہونی چاہیئے تھی کیونکہ عرب میں بچوں کو عموماً دایہ دودہ پلاتی تھیں۔ اس اعتبار سے اس حکم کو عرب میں خصوصی اہمیت حاصل ہونی چاہیئے تھی اور ممکن نہ تھا کہ یہ آیت صرف حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) تک ہی محدود رہتی۔ لیکن تدوین قرآن میں کسی نے اس آیت کا تذکرہ نہیں کیا ۔
درحقیقت یہ حکم بتدریج تبدیل ہوا۔پہلے دس باردودھ پینے پر نکاح کے حرام ہونے کا حکم تھا پھر اسے پانچ سے منسوخ کردیا گیا اور پھر زمانہ شیر خواری میں ایک باردودھ پینے سے بھی رضاعت ثابت ہونے کا حکم آگیا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ الرَّضَاعِ فَقُلْت : إنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ لَا تُحَرِّمُ الرَّضْعَةُ وَلَا الرَّضْعَتَانِ قَالَ : قَدْ كَانَ ذَاكَ ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَالرَّضْعَةُ الْوَاحِدَةُ تُحَرِّمُ۔
طاؤس نے ابن عباس سے روایت کی کہ “مجھ سے پستانوں سے دودھ پینے کے بارے دریافت کیا گیا، تو میں نے کہا کہ لوگ تو کہتے ھیں کہ ایک یا دو دفعہ کا پینا نکاح حرام نہیں کرتا، انہوں نے کہا پہلے ایسا تھا پر اب ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جائے گا(احکام القرآن 224/4)۔
مصنف عبدالرازق میں طاؤس(106 ہجری ،آپ تابعی ہیں اور حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) سمیت بہت سے صحابہ کے شاگرد ھیں ) سے روایت ہے ” كان لازواج النبي صلى الله عليه وسلم رضعات معلومات ، قال : ثم ترك ذلك بعد ، فكان قليله وكثيره يحرم
ترجمہ:” پیغمبر اکرم ﷺ کی بیویوں نے کہا کہ دودھ کاایک مخصوص تعداد(پانچ یا دس) تک پینا رضاعی رشتے(یعنی نکاح کو حرام) کو ثابت کرتا ہے ‘ انہوں نے مزید کہا کہ: ‘ تو یہ حکم کافی عرصہ رہا پھر بعد میں ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جانے کا حکم لاگو ہوا۔( مصنف عبدالرازق ،حدیث 13914)۔
حکم میں تبدیلی کیوں؟ حکم میں بتدریج تبدیلی کی حکمت یہ ہے کہ عرب میں اس وقت ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلانا عام رواج تھا لیکن دوسری طرف اسکا شادیوں پر بھی اثر پڑنا تھا اس لیے حکم کو آہستہ آہستہ سخت کیا گیا تا کہ معاشرے میں تناو اور تکلیف سے بھی بچا جاسکے۔
خلاصہ : اس ساری بحث سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ بلا حدیث قرآن مجید کی صداقت پر کوئی استدلال نہیں کرتی۔اور یہ کہ دس اور پانچ بار دودھ پلانے پر نکاح کا حرام ھونا والی آیات حیات طیبہ ﷺ میں ہی منسوخ ہو گئی تھیں۔اب یا تو معترضین ہمارے قوانین کے مطابق روایات کی جانچ پڑتال کو مانیں یا انکی حقانیت کو غلط ثابت کرنے کی ہمت پیدا کریں۔ ( اس بحث سے مقصد یہ نہیں تھا کہ کتنی بار دودھ پلانے سے رضاعی رشتہ ثابت ھوتاہے بلکہ اس شک کو رفع کرنے کا تھا کہ آپﷺ کے بعد قرآن مجید میں کوئی تبدیلی نہین ہوئی ،مزید اس مسئلے کی تفصیل اور دلائل کے لیے دیکھئے (تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم از مفتی تقی عثمانی )


quran ki zabaan arabi jise zamana farsuda na kersaka

No automatic alt text available.



قرآن کی زبان عربی جسے زمانہ فرسودہ نا کرسکا
زبانیں ہمیں تہذیب کا سفر طے کراتی ہیں۔وہ اپنا آغاز ایک بالکل اجنبی اور نامانوس زبان کی حیثیت سے کرتی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،اور مختلف تہذیبوں کے ملتے جلتے رہنے کے باعث ایک بالکل ہی نئی اور شان دار حیثیت سے دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ علم وادب کا ایک وسیع ذخیرہ اور الفاظ ومعانی کا ایک دریا ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان کو دیکھیں۔ وہ اس زبان سے قطعی مختلف ہوگی، جو اپنی ابتدا میں تھی، حتیٰ کہ اکثر اوقات اس ابتدائی زبان کو خود اس کے اپنے ماہرین بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ فرانسیسی، لاطینی، انگریزی، اردو اور فارسی وغیرہ نے تاریخ کے سفر میں اَن گنت شکلیں بدلی ہیں اور تب جاکر وہ آج کی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے آئی ہیں۔
 
اصولاً یہ معاملہ قرآن پاک کی عربی زبان کے ساتھ بھی پیش آنا چاہیے تھا۔ اسے بھی تبدیل ہوکر کچھ سے کچھ ہوجانا چاہیے تھا۔ قرآن پاک آج سے ۱۵سو سال قبل نازل ہوا تھا، چنانچہ اُس وقت کی عربی زبان ، آج کی اس اکیسویں صدی میں ہمارے لیے بالکل اجنبی ہونا چاہیے تھی۔ اگر فی الحقیقت ایسا ہوا ہوتا، تو قرآن پاک سے ہمارا رشتہ آج ٹوٹ چکا ہوتا اور دین اسلام ہمارے لیے اجنبیت اختیار کرجاتا۔بالکل اسی طرح جیسے انجیل اور تورات کی اصلی زبانیں آج کہیں موجود نہیں ہیں او ر یہ دونوں کتابیں اب ہمارے ہاں غیر مستند سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی آج بھی اپنے اندر حُسن، کشش،ادبی ذخیرہ اور زبان وبیان کا اعلیٰ مقام لیے ہوئے ہے۔ اس عربی کا کوئی بھی لفظ آج تک نہ متروک ہوسکا ہے اور نہ اس سے برتر کوئی اور لفظ سامنے آسکا ہے۔
 
جیسے جیسے اسلام کی اشاعت کرّۂ ارض پر ہوتی چلی گئی ، اسے اسی قدر نت نئی زبانوں سے سابقہ بھی پیش آتا رہا۔ جب اسلام یورپ، ایشیا اور افریقہ جیسے دیگر براعظموں کے اندر داخل ہوا تو عربی سے واقف کوئی ایک فرد بھی وہاں موجود نہ تھا۔ اسلام نے وہاں بعض علاقوں میں ۵۰۰سے۶۰۰برسوں سے زیادہ حکم رانی کی ہے ،مگر کسی جگہ کی کتنی ہی طاقت ور زبان، عربی زبان پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ عراق، مصر ، ایران اور روم بڑی جان دار تہذیبوں کے مراکز تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی تہذیب عربی زبان کو مسخر نہ کرسکی، بلکہ اس کے برعکس الٹا عربی زبان ہی نے ان کی زبانوں میں بڑے بڑے ردّوبدل کردیے، حتیٰ کہ ان کی زبانیں اور طرز تحریر تک بدل کے رکھ دیے۔ جیسا کہ ہم اپنی مقامی سندھی زبان کو دیکھتے ہیں کہ سندھ کی عرب فتوحات کے بعد اس کا رسم الخط تبدیل ہوکر عربی ہوگیا۔
 
اس قرآنی زبان کو مٹانے کے لیے بڑی بڑی تدبیریں اختیار کی گئیں۔ ایرانی حکم رانوں نے عربی کے کتب خانوں کو جلایااور مدرسوں کو اجاڑدیا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے عربی زبان کے خلاف اپنی پوری قوت صَرف کردی اورتمام تعلیم انگریزی اور فرانسیسی زبان میں دینے لگے، لیکن اس کے باوجود تمام علاقوں میں عربی زبان بدستور اپنی اصل حالت میں موجود رہی ۔اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ قرآن پا ک ایک زندۂ جاوید کلام کی حیثیت سے سدا سے موجود چلا آرہا ہے۔
 
قبل اسلام، عرب میں اچھے شعر کی ایک تعریف یہ بھی رائج تھی کہ اس میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ شامل ہونا چاہیے، اور اس جھوٹ میں شدید مبالغہ آرائی ہونی چاہیے۔ لیکن قرآن پاک نے سورۂ رحمن میں حقائق کا اتنا خوب صورت بیان کیا کہ اس سے زیادہ خوب صورت بیان ممکن نہیں تھا۔اسی وجہ سے اسے عروس القرآن(قرآن کی دلہن) کا خطاب دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی نے عربوں کو نت نئے الفاظ ہی نہیں دیے بلکہ ان کے وسیع مفا ہیم بھی دیے جن سے پہلے وہ خود بھی ناآشنا تھے۔
 
زبانوں کی ترقی وتبدیلی میں اُدبا اور شعر ا کا سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے۔ہر بڑا شاعر اور ادیب زبان کو نئے زاویے اور نئی حیات عطا کرتا ہے۔ زبانیں اسی طرح بدلتی ہیں، یہاں تک کہ دوتین صدیوں کے بعد اوّلین زبان کو لوگ شرحوں اور لغتوں کے بغیر سمجھ بھی نہیں پاتے!۔ اس کلیے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ ہے عربی زبان کا استثنا۔ عربی آج بھی اسی آسانی اورفصاحت سے سمجھ میں آجاتی ہے، جیسی کہ وہ اپنے اوّلین دور میں سمجھی جاتی تھی۔ بے شک حالات کے حساب سے چند نئے الفاظ اور اصطلاحات بھی عربی میں رائج ہوئیں، لیکن قرآن کی عربی مبین پر وہ ہر گز اثر انداز نہ ہو سکیں۔
 
زندگی کے حقائق کو قرآن پاک نے اتنے فصیح وبلیغ عربی انداز میں بیان کیا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی اس سے بہتر زبان اور انداز میں انھیں بیان نہیں کرسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے الفاظ میں معنی کے لحاظ سے بے حد وسعت ہوئی اور اس کے جدید ترین مطالب سامنے آئے ہیں۔ یقیناًمستقبل کی صدیوں میں ان کے مزید جدید مطالب سامنے آئیں گے جن کی مدد سے اس دور کا ماحول اوربھی بہتر انداز میں سمجھ میں آسکے گا۔ لیکن مطلب کی اس جدت نے عربی الفاظ اور اصطلاحوں کو متروک اور ناکارہ نہیں کیا،بلکہ آج بھی ان کی تازگی اور حُسن پہلے ہی کی طرح برقرار ہے۔ ابتدائی دور کا کوئی عرب زندہ ہوکر آج اگر عرب ممالک میں اپنی گفتگو کرے تو اس کی زبان صدیوں کے فاصلے کے باوجود اسی کے زمانے کے مطابق سمجھی اور سنی جائے گی۔
 
معروف انگریز مؤرخ فلپ کے حِتی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں اعتراف کرتا ہے کہ’’ قرآن پاک کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب ولہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے حالانکہ خود رومی زبان بھی بعد میں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ بے شک ایک عراقی یمنی عربی کی زبان سمجھنے میں مشکل محسوس کرے گا لیکن وہ اسی کی لکھی ہوئی عربی کو بآسانی سمجھ لے گا‘‘ (ص ۱۲۷)۔
 
عالم اسلام کے ممتاز مفسر سید قطب شہیدؒ کہتے ہیں کہ جو ممالک اسلام کے لیے مفتوح ہوئے اور جہاں بہت سے غیر معمولی عصری علوم وفنون اُبھر کے سامنے آئے، وہ ان کی اپنی اور اصل قدیم زبانوں میں نہیں بلکہ اس نئی زبان، اس دین کی زبان، اسلامی زبان (عربی) میں سامنے آئے۔ ان نئے حقائق، نئے فنون ،اور نئے افکار کو پیش کرتے وقت یہ بات بالکل ظاہر نہ ہوتی تھی کہ یہ اجنبی زبان میں ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان علوم وفنون کے لیے عربی زبان گویا ان کی اپنی مادری زبان بن گئی تھی۔(فی ظلال القرآن،جلد سوم، ص۳۱۲)
 
تفسیر مذکورہ کے مترجم عالم دین سید حامد علیؒ اس تشریح کے ضمن میں مزید حیرت انگیز وضاحت کرتے ہیں کہ تفسیر ،فقہ، کلام، تصوف، فلسفہ، جغرافیہ، سائنس، عربی لغات اور تاریخ وغیرہ، تمام علوم وفنون میں چھوٹی بڑی بلکہ ضخیم مجلدات تصنیف کرنے والے لوگ ۹۰فی صد عجمی تھے اور انھوں نے یہ سارا کام عربی زبان میں اس طرح کیا تھا کہ گویا وہ ان کی اپنی ہی زبان ہو۔ یہی نہیں بلکہ اس دور میں پوری متمدن(ومہذب) دنیا کی علمی زبان عربی تھی۔(ایضاً ص۳۱۲)۔ یہ جو آج ہم ماضی کے مسلم مفکرین و سائنسدان، مثلاً ابنَ فرناس، ابنِ سینا، ابنِ بطوطہ، ابنِ خلدون اور علامہ ابنِ کثیر وغیرہ کے کارنامے سنتے اور پڑھتے ہیں ، وہ سب کے سب عرب خطوں کے باشندے بہرحال نہیں تھے ۔ لیکن انھوں نے اپنی کثیر تصنیفات کا بیش تر حصہ عربی زبان ہی میں تیا ر کیا تھا۔
 
اپنی اصل میں عربی زبان محض ایک زبا ن ہی ثابت نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک تہذیب ساز عامل بھی بن کے سامنے آئی۔ دنیا کے جس خطے میں بھی وہ گئی ، اس نے وہاں جا کر ایک بالکل ہی نئی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔دنیا کی موجودہ عالمی زبانوں کی لغت میں آج لاتعداد الفاظ عربی کے پائے جاتے ہیں کیونکہ دنیا کے ایک تہائی خطے پر کبھی اسلام کا پرچم لہرایا کرتا تھا۔ astrolobe, stable, camel, sugar, zenith, lick, rim, وغیرہ جیسے الفاظ دراصل عربی الاصل ہی ہیں۔
ایک مغربی مفکر نے۱۸۹۰۰ء میں ایک بات کہی تھی کہ’’ عربی زبان کا نہ کوئی بچپن ہے نہ بڑھاپا۔ وہ اپنے ظہور کے پہلے دن جیسی تھی، ویسی ہی آج بھی ہے‘‘۔ گویا وہ شروع ہی سے ایک بالغ اور بھر پور زبان رہی ہے ۔واضح رہے کہ اس نے عربی کی یہ تعریف اٹھارھویں صدی کے آخری دور میں کی تھی ،جب کہ زمانہ آج اکیسویں صدی کا ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں عربی زبان سے زیادہ کوئی اور زبان معجزاتی نہیں ہے اور نہ کسی اور زبان میں الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہی موجود ہے جتنا عربی زبان میں ہے۔کیونکہ بعض اوقات صرف ایک اسم کے تعارف کے لیے اس میں ۵۰سے زیادہ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے اس کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ عربی وہ زبان ہے جسے وقت کی آندھیاں بوسیدہ نہ کر سکیں!
سید مودودیؒ کے بقول:
’’
۱۴۴سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدروقیمت میں نہیں پہنچتی۔ یہی نہیں، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ ۱۴صدیاں گزر جانے پر بھی اِس زبان کا معیارِ فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املا، انشاء، محاورے، قواعدِزبان اور استعمالِ الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو۔ لیکن یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا۔ اُس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے۔ اُس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے۔ اُس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو ۱۴۰۰برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اِس شان کی ہے؟‘‘(تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۱۷۵۔۱۷۶)
 
استفادہ تحریر : رضی الدین سیّد

Thursday, October 6, 2016

zamin o asmaan ki takhliq 6 ya 8 din


اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 3
افلاک و ارض کی تخلیق چھ یا آٹھ روز میں؟
" قرآن کئی مقامات پر یہ بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا کئے گئے، لیکن سورۃ فُصِلت ( حم السجدہ ) میں کہا گیا کہ زمین و آسمان 8 دنوں میں بنائے گئے، کیا یہ ایک تضاد نہیں؟ اسی آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی اور پھر اس کے بعد آسمان 2 دنوں میں پیدا کیئے گئے،"
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ قرآن کے مطابق آسمان اور زمین 6 دنوں، یعنی چھ ادوار میں پیدا کئے گئے ۔ اس کا ذکر حسب ذیل سورتوں میں آیا ہے:
٭ سورۃ اعراف کی آیت 54
٭ سورۃ یونس کی آیت 3
٭ سورۃ ہود کی آیت 7
سورۃ فرقان کی آیت 59
٭ سورۃ سجدی کی آیت 4
٭ سورۃ ق کی آیت 38
٭ سورۃ حدید کی آیت 4
وہ آیاتِ قرآنی جو آپ کے خیال میں یہ کہتی ہیں کہ آسمان و زمین آٹھ دنوں میں پیدا کیے گئے ، وہ 41 ویں سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) کی آیاات: 9 تا 12 ہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ :
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٩)وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (١٠)ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلأرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١١)فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (١٢)
" ( اے نبی! ) ان سے کہیئے: کیا تم واقعی اس ذات سے انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا؟ وہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس نے اس ( زمین ) میں اس کے اوپر پہاڑ جما دیئے، اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں غذاؤں کا ( ٹھیک ) اندازہ رکھا۔ یہ ( کام ) چار دنوں میں ہوا، پوچھنے والوں کے لیے ٹھیک ( جواب ) ہے، پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے اس (آسمان ) سے اور زمین سے کہا: وجود میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو، دونوں نے کہا: ہم آگئے، فرمانبردار ہوکر۔ تب اس نے دونوں کے اندر انہیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کاکام الہام کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں ( ستاروں ) سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب ایک بہت زبردست، خوب جاننے والے کی تدبیر ہے۔ "
( سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) 41 آیات 9 تا 12)
قرآن کریم کی ان آیات سے بظاہر یہ تاثر ملا ہے کہ آسمان اور زمین 8 دنوں میں پیدا کیے گئے۔
اللہ تعالی اس آیت کے شروع ہی میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عبارت کے اس ٹکڑے میں موجود معلومات کو اس کی صداقت کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، درحقیقت وہ کفر پھیلانے میں دلچسپی رکھتے اور اس کی توحید کے منکر ہیں۔ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہی ہمیں بتا رہا ہے کہ بعض کفار ایسے بھی ہوں گے جو اس ظاہری تضاد کو غلط طور پر استعمال کریں گے۔
" ثُم " سے مراد " مزید برآں "
اگر آپ توجہ اور احتیاط کے ساتھ ان آیات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں زمین اور آسمان کی دو مختلف تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کو چھوڑ کر زمین دو دنوں میں پیدا کی گئی۔ اور 4 دنوں میں پہاڑوں کو زمین پر مضبوطی سے کھڑا کیا یگا اور زمین میں برکتیں رکھ دی گئیں اور نپے تلے انداز کے مطابق اس میں رزق مہیا کردیا گیا۔ لہذا آیات: 9 اور 10 کے مطابق پہاڑوں سمیت زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی، آیات: 11 اور 12 کہتی ہیں کہ مزید برآں دو دنوں میں آسمان پیدا کئے گئے ، گیارہویں آیت کے آغاز میں عربی کا لفظ " ثُم " استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب پھر یا مزید برآں ہے، قران کریم کے بعض تراجم میں " ثُم " کا مطلب پھر لکھا گیا ہے۔ اور اس سے بعد ازاں مراد لیا گیا ہے۔ اگر " ثُم " کا ترجمہ غلط طور پر " پھر " کیا جائے تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے کل ایام آٹھ قرار پائیں گے اور یہ بات دوسری قرآنی آیات سے متصادمم ہوگی جو یہ بتاتی ہے کہ آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیئے گئے ، علاوہ ازیں اس صورت میں یہ آیت قرآن کیرم کی سورۃ الانبیاء کی 30 ویں آیات سے بھی متصادم ہوگی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین و آسمان بیک وقت پیدا کئے گئے تھے۔
لہذا اس آیت میں لفظ " ثم " کا صحیح ترجمہ " مزید برآں " یا " اس کے ساتھ ساتھ " ہوگا۔
علامہ عبداللہ یوسف علی نے صحیح طور پر " ثؐم " کا ترجمہ " مزید برآں (Moeover) " کیا ہے جس سے واضح طور پر ییہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب پہاڑوں وغیرہ سمیت چھ دنوں مین زمین پیدا کی گئی تو بیک وقت اس کے ساتھ ہی دو دنوں میں آسمانن بھی پیدا کیئے گئے تھے، چنانچہ کل ایام تخلیق آٹھ نہیں چھ ہیں۔
فرض کیجیئے ایک معمات کہتا ہے کہ وہ 10 منزلہ عمارت اور اس کے گرد چار دیواری 6 ماہ میں تعمیر کردے گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمارت کا تہ خانہ 2 ماہ میں تعمیر کیا گیا اور دس منزلوں کی تعمیر نے 4 مہینے لیے اور جب بلڈنگ اور تہ خانہ بیک وقت تعمیر کیئے جاررہے تھے تو اس نے ان کے ساتھ ساتھ عمارت کی چار دیواری کی بھی تعمیر کردی جس میں دو ماہ لگے۔ اس میں پہلا اور دوسرا بیان باہم متصادم نہیں لیکن دوسرے بیان سے تعمیر کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ اس مثال میں سرت من البصرة الی بغداد و سرت الی الکوفة فی خمسةعشر یوماً کہ میں نے بصرہ سے بغداد تک کی منزل کو دس روز میں تمام کیا اور کوفہ تک پندرہ دن میں تمام کیا، چونکہ متصل ایک ہی قسم کا سفر تھا اس لیے مجموعی مدت لگائی گئی زبان نہ جاننے سے ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں.