CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Wednesday, September 28, 2016

QURAN ME HUROOF MAQTAAT KI TARTEEB JISKI WAJA SE MASHHUR SHAIHIR HAZRAT LUBAID BIN RABIH AAMRI NE ISLAM QABUL KIYA




یہ پوسٹ صاحب علم حضرات کے لیے ہے۔
حضرت لبید ؓ بن ربیعہ عامری کا شمار جاہلی عرب کے ان شعراء میں ہوتا ہے جو عزت اور شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے اور دنیا نے جنہیں امراء القیس، نابغہ ذبیانی، زہیر بن ابی سلمیٰ، عمرو بن کلثوم، اعشیٰ بن قیس اور طرفہ بن العبد جیسے نامور شعراء کی صف کا شاعر تسلیم کیا۔
ابو عقیل لبید بن ربیعہ ان سات شعراء (اصحاب المعلقات یا المذّہبات) میں سے ایک تھے جن کے قصائد زمانۂ جاہلیت میں اہلِ مکہ نے کعبہ میں آویزاں کررکھے تھے
ان کو اوائل عمر ہی سے شعر و شاعری سے لگائو تھا۔ عہدِ شباب میں ایک دفعہ اپنے چچائوں کے ساتھ نعمان ابوقابوس کے دربار میں گئے تو وہاں عظیم جاہلی شاعر نابغہ ذبیانی سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے ان کا کلام سن کر بہت داد دی اور کہا کہ تم بنی عامر اور بنو قیس کے تمام شاعروں سے بڑھ گئے۔ اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ جاہلی عرب کے شعراء کی صفِ اوّل میں آگئے اور تمام عالمِ عرب میں ان کی شہرت پھیل گئی۔ .
زمانۂ جاہلیت میں لبید اکثر مکے آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنے شاعرانہ کمالات کی بدولت وہ قریش کے نزدیک بڑی قدرومنزلت کے حامل تھے۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ 5 بعدِ بعثت میں ایک دفعہ وہ مکہ آئے تو اہلِ مکہ نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ اُس وقت تک شرفِ اسلام سے بہرہ ور نہیں ہوئے تھے اس لیے حسبِ سابق قریش کی محافلِ شعر و سخن کو گرمانے لگے۔ ایک دن ایسی ہی ایک محفل میں اپنا قصیدہ سنا رہے تھے، جب یہ مصرع پڑھا: الاکل شیًٔ ماخلا اللہ باطِل (خبردار رہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے) تو جلیل القدر صحابی حضرت عثمان بن مظعون، جو اس مجلس میں موجود تھے، بے اختیار پکار اٹھے: ’’تم نے سچ کہا۔‘‘ لیکن جب انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا: وکل نعیمٍ لامحالۃ زائلٌ (اور ہر نعمت لامحالہ زائل ہونے والی ہے) تو حضرت عثمان بن مظعون بول اٹھے: ’’یہ غلط ہے، جنت کی نعمتیں ابدی ہیں اور کبھی زائل نہ ہوں گی۔‘‘ اس پر سارے مجمع میں شور مچ گیا، لوگ حضرت عثمان بن مظعون کو برا بھلا کہنے لگے اور لبید سے یہ شعر دوبارہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے اس شعر کی تکرار کی تو حضرت عثمان نے بھی اپنے الفاظ کا اعادہ کیا۔ اس پر لبید سخت برافروختہ ہوئے اور قریش سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: ’’اے برادرانِ قریش، خدا کی قسم پہلے تمہاری مجلسوں کی یہ کیفیت نہ تھی، نہ ان میں بیٹھنا کسی کے لیے باعثِ ننگ و عار تھا اور نہ کبھی بدتمیزی نے ان میں راہ پائی تھی۔ اگر یہ شخص مجھے اسی طرح ٹوکتا رہا تو میں اپنا کلام سنا چکا۔‘‘ لبید کی باتیں سن کر مشرکین بھڑک اٹھے اور انہوں نے حضرت عثمان بن مظعون کو برا بھلا کہنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان پر ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔
۔ اکثر ارباب سِیَر نے لکھا ہے کہ ایمان لانے کے بعد حضرت لبید نے شاعری ترک کردی اور تادم ِمرگ ایک یا دو کے سوا کوئی شعر نہیں کہا، فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے شعر کے عوض سورۂ بقرہ اور آلِ عمران دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک مرتبہ حضرت لبید سے پوچھ بھیجا کہ آپ نے زمانۂ اسلام میں کون سے اشعار کہے۔ جب انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ شعر کے عوض مجھے اللہ نے بقرہ اور آلِ عمران دی ہیں
ابن قتیبہ نے ان کے سلیم الفطرت ہونے کے ثبوت میں یہ شعر پیش کیا ہے جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں کہا تھا وکل امری یومًا سیعلم سعیہ اذا کشفٍ عندالا لہ المحاصل (اور ہر انسان کو اپنی کوششوں کا نتیجہ اُس وقت معلوم ہو گا جب اس کے نتائج اللہ کے سامنے ظاہر ہوں گے) عرب کے فحول شعراء میں حضرت لبید بن ربیعہ کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ ایک دفعہ عرب کا نامور شاعر فرزوق ان کا یہ شعر سن کر بے اختیار سجدے میں گر گیا: رجلا السیول عن الطول کانھا زبر تجد متونھا اقلامھا (اور سیلاب نے ٹیلوں کو اس طرح مجلّیٰ کردیا گویا وہ کتاب کے صفحات ہیں جن کے متن کو قلم نے درست کیا) لوگوں نے فرزوق سے پوچھا: ’’یہ کیسا سجدہ ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’یہ سجدۂ شعر ہے، جس طرح لوگ قرآن کے مقاماتِ سجدہ کو جانتے ہیں، میں شاعری کے مقامِ سجدہ کو پہچانتا ہوں
لبید کے قبول اسلام کے تعلق سے بڑے بڑے دعوے پائے جاتے ہیں اور اسے قرآن کی فصاحت و بلاغت کے علاوہ کلام الٰہی ہونے کے ایک ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ جان ڈیون پورٹ کے مطابق لبید نے قرآن کی کچھ آیات کو کعبہ پر آویزاں دیکھا اور شرما کر اپنے قصیدے کو اتار لے گئے اور مسلمان ہوگئے۔ خلیفہ محمد حسن کہتے ہیں کہ‘‘ یہی وجہ تھی لبید جیسا صاحب طرز شاعر بے اختیار بول اٹھا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے اور فوراً مسلمان ہوگیا کیوں کہ بہ سبب اس کمال واقفیت اور مہارت کے جو فن فصاحت و بلاغت میں اسے حاصل تھی، وہ اس بات کو جانچنے کی قابلیت رکھتا تھا کہ انسان ایسا کلام کرسکتا ہے یا نہیں ۔’’(اعجاز التنزیل، صفحہ 503
حضرت لبید رض کے بارے میں مشہور ہے کہ حروف مقطعات ہی آپ کے قبول اسلام کی وجہ بنی
29 سورتوں میں 14 حروف مقطعات کا ذکر ھے ان چودہ حروف میں تمام اقسام کے حروف کی آدھی قسمیں ذکر ہیں
یہاں پہ چند اقسام کا ذکر ہے تاکہ حروف مقطعات کی اعجاز بیانی کو سمجھا جا سکے
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
صفات کے اعتبار سے حروف کی اقسام
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
مھموسۃ
وہ حروف جن کی ادائیگی کے وقت سانس نہ رُکتی ہو بلکہ ادائیگی بھی ہوتی رہے اور سانس بھی چلتی رہے
حروف مھموسۃ کل دس ہیں
ف ، ح ، ث ، ہ ، ش ، خ ، ص ، س ، ک ، ت
حروف مھموسہ میں سے جن پانچ حروف کو لیا گیا
(ح،ھ ، ص ، س ، ک ،)
کٓھٰیٰعٓصٓ
حم
طٰس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجہورہ
وہ حروف جن کی ادائیگی کے وقت سانس رک جاتی ہو
حروف مجہورہ کل 18 ہیں
ا ، ب ، ج ، د ، ذ ، ر ، ز ، ض ، ط ، ظ ، ع ، غ ، ق ، ل ، م ، ن ، و ، ی
حروف مجہورہ سے 9 حروف کو مقطعات میں لیا گیا ہے
(
ل ، ی، ق ، ط ، ع ، ا ، م ، ر ، ن )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدیدہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت آواز ان کے مخرج میں ایسی قوت کے ساتھ ٹھہرے کہ آواز بند ہو جائے
حروف شدیدہ آٹھ ہیں جن کا مجموعہ
اَجِدُک قَطبَت
ان میں سے مقطعات میں چار حروف کا ذکر ہے
جن کا مجموعہ ،اَقطک ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخوہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت آواز ان کے مخرج میں ایسے ضعیف کےساتھ ٹھہرے کہ آواز جاری رہے شدیدہ کے علاوہ باقی 20 حروف رخوہ ہیں
جن میں سے 10 کا مقطعات میں ذکر ھے
جن کا مجموعہ ،، حمس علی نصرہ ،، ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبقہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت زبان کا بیچ اوپر کے تالو سے ملصق ہو جاتا یے حروف مطبقہ کل چار ہیں
ص ، ض ، ط ، ظ
ان میں سے مقطعات میں 2 حروف کا زکر ہے
ص ، ط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف قلقلہ
ان حروف کے حالت سکون میں ادا کے وقت مخرج کو حرکت ہو جاتی ہے
حروف قلقہ پانچ جن کا مجموعہ ،، قطب جد ،، ہے
ان میں نصف اقل یعنی 2 کا زکر مقطعات میں ذکر ہے
ط ، ق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف لین
ایسے حروف جن کو مخرج سے ایسی نرمی کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ان پر مد کرنا چاہے تو کر سکے حروف لین دو ہیں
و ی
ان میں سے ی کا مقطعات میں ذکر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستعلیہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت جڑ زبان کی اوپر کےتالو کی طرف اُٹھ جاتی ہے حروف مستعلیہ کل سات ہیں جن کا مجموعہ ،، خص ضغط قظ ،، ہے
ان میں سے نصف اقل یعنی
تین کو لیا گیا ہے
ص ، ط ، ق

 ممتاز علی

ḥurūf muqaṭṭaʿāt ( حروف مقطعات) per mulhido ke aitraazaat


5.  فری فرام تھنکنگ۔ 
حروف مقطعات اور ملحدین کی چولیات۔۔۔۔!



محترمین لگتا ہے ملحدین نے سارے قرآن کو سمجھ لیا ہے اور اب حروف مقطعات پر بحث کرنے نکلے ہیں۔ صاحب فرماتے ہیں ، " مسلمان ان لفظوں کو بے معنی سمجھتے ہیں" ، لو جی یہ تھی پہلی چول جو ملحد نے ماری۔ میں نے اب تک اپنی زندگی میں کوئ بھی ایسا مسلمان نہیں دیکھا جو قرآن کے کسی بھی حرف کو "بے معنی" کہتا ہو۔ پھر دوسری آرا دیتے ہیں کہ یا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب صرف خدا اور رسول ﷺ کو معلوم ہے۔ چلیں اگر یہی سمجھ لیں تو کیا پھر بھی یہ حروف " بی معنی" بن جاتے ہیں؟؟ آگے ایک اور چول مارتے ہیں کہ ، " اس صورت میں یہ الفاظ ہمارے لیے مہمل کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی بے کار اور فضول"۔۔۔ یعنی جو چیز ملحد کی چھوٹی سی دو انچ کی عقل میں نہ آۓ وہ بے کار اور فضول ہو جاتی ہے؟؟؟ آگے مزید چول مارتے ہیں کہ ، " اور کفار نے ان لغو اور بے معنی الفاظ پر اعتراض نہیں کیے کہ یہ کیا فضول اور بے کار الفاظ ہیں"۔۔۔۔ یہاں ملحد کی سوچ اور فہم کا انداز دیکھیے کہ جب کفار نے ان پر اعتراض نہیں کیے ، وہ کفار جو اپنی فصاحت و بلاغت میں مشہور تھے، شاعری ان کے خون میں تھی، اپنی زبان پر فخر کرتے تھے، ایک ایک نکتے کی غلطی نکالنا جانتے تھے، انہوں نے ان پر اعتراض نہیں کیا اور آج کے جاہل ملحد جو عربی سے ہی بالکل نا آشنا ہیں وہ ان کو لغو اور بے کار کہ رہے ہیں۔

ملحد کی چول: 

ایک ملحد کہتے ہیں کہ الف لام میم ( الم) کا مطلب عرب کی دیویاں عزہ ، لات اور منات ہیں۔ یہی بات ملحد امجد حسین نے اپنے سرقے میں کہی تھی۔ 
مگر ان قرآن پر اعتراض کرنے والے "عربی دانوں " کو اتنا نہیں معلوم کہ "عزہ" ع سے ہوتا ہے نہ کہ الف سے۔۔۔۔! لیجیے یہ ہے معیار عربی کا۔۔۔ 
ہم ان حروف کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ 
اللہ اعلم بالمراد منھا ، کہ ان کی مراد اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ مگر یہ کلام الہی میں ہیں ہم ان کو کلام کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے بے کار اور فضول نہیں سمجھتے۔

حروف مقطعات کی بہترین تعبیر :

مختلف علماء کی طرف سے پیش کردہ تعبیرات میں سے مستند تعبیر حسب ذیل ہے جس کی تائید امام ابن کثیر، زمخشری اور ابن تیمیہ ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی طرف سے بھی کی گئی ہے:

انسانی جسم کا مرکب کائنات میں پائے جانے والے مختلف عناصر سے تیار کیا گیا ہے۔ مٹی اور گارا بھی انہی بنیادی عناصر کا آمیزہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوتا کہ انسان بالکل مٹی جیسا ہے، ہم سب سے ان عناصر تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں اور ہم ان میں چند گیلن پانی ڈال سکتے ہیں جس سے انسانی جسم تشکیل پاتا ہے مگر اس سے ہم زندگی تخلیق نہیں کرسکتے۔ ہمیں انسانی جسم میں شامل عناصر کا علم ہے لیکن اس کے باوجود جب ہم سے رازِ زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو ہمارے پاس اظہار حیرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح قرآن مجید ان لوگوں سے خطاب کرتا ہے جو اس کے اُلُوہی احکام کو نہیں مانتے۔ قرآن ان سے کہتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ ( جس پر عرب بہت فخر کرتے تھے ) یہ انہی حروف پر مشتمل ہے جنہیں عرب بڑی فصاحت سے اظہار و بیان کے لیے استعمال کرتے تھے۔ عرب اپنی زبان پر بہت نازاں تھے اور جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، عربی زبان اپنے عروج پر تھی، حروف مقطعات: الم، یس، حم وغیرہ کے استعمال سے ( انگریزی میں اے، بی، سی، ڈی کہ سکتے ہیں۔ ) قرآن بنی نوع انسان کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر انہیں اس کے مستند ہونے میں شک ہے تو وہ حسن فصاحت میں قرآن سے ملتی جلتی کم از کم ایک سورت ہی لکھ کر لے آئیں۔

ابتداء میں قرآن کریم تمام انسانوں اور جنوں کو چیلنج دیتا ہے کہ تم قرآن جیسا کلام لا کر دکھا دو، پھر مزید کہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کی امداد کرکے بھی یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ یہ چیلنج سورۃ الاسراء ( بنی اسرائیل ) کی 88 ویں آیت اور سورۃ طور کی 34 ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ چیلنج گیارھویں سورت ہود کی 13 ویں آیت میں دہرایا گیا اور فرمایا گیا کہ اس جیسی 10 سورتیں تیار کرکے دکھاؤ، بعد ازاں دسویں سورت یونس کی آیت 38 میں اس جیسی ایک سورت بنا لانے کو کہا گیا اور آخر کار سورۃ البقرہ کی ایات 23 اور 24 میں آسان ترین چیلنج دیا گیا:

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤)

" اور اگر تم اس ( کلام ) کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو، پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم کر بھی نہیں سکتے، تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، ( اور جو ) کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
(سورۃ البقرہ 2 آیت 23 تا 24)
دو ہنر مندوں کی مہارت کا تقابل کے لیے انہیں لازماً ایک ہی خام مال کے نمومے فراہم کئے جانے چاہیئیں اور پھر ایک ہی کام کے ذریعے سے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ عربی زبان کا خام مواد یہی حروف الم، یس وغیرہ ( جیسے انگریزی میں اے ، بی ، سی ، ڈی ) ہیں۔ قران کریم کی زبان کی معجزاتی فطرت صرف یہی نہیں کہ یہ کلام الہٰی ہے بلکہ اس کی عظمت اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ اگرچہ یہ انہی حروف سے وجود میں آئی ہے جن پر مشرکین فخر کرتے تھے۔ لیکن اس کے مقابلے کی کوئی عبارت پیش نہیں کی جاسکی۔

قرآن کلام الہی ہے:
نبی ﷺ امی تھے۔ ان الفاظ کو ادا کرنا اہل عرب کے لیے حیرانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیونکہ زبان تو سب بول لیتے ہیں مگر ان کے حروف تہجی کو اس فصاحت سے ادا کرنا نبی ﷺ کے لیے ان کو ناممکن سا لگتا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک ان پڑھ شخص پنجابی یا اردو تو بول لے گا مگر اس سے حروف تہجی سن لیں یا یہ کہ یہ الفاظ کیسے بنے اس کو کوئ پتا نہ ہو گا۔ کچھ خاص لوگوں کو صرف ان حروف کا پتا تھا۔ ان حروف کو ادا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کلام الہی ہے۔

قرآن مجید کا معجزاتی وصف :
عرب اپنی خطابت، فصاحت اور قدرت کلام کی وجہ سے معروف ہیں، جیسے ہمیں انسانی جسم کے ترکیبی عناصر معلوم ہیں اور ہم انہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کے حروف، جیسے: الم سے بھی ہم خوب واقف ہیں اور انہیں اکثر الفاظ بنانے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسانی جسم کے ترکیبی عناصر کا علم حاصل ہونے کے باوجود ، زندگی کی تخلیق ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح جن حروف پر قرآن مشتمل ہے ان کا علم رکھنے کے باوجود ہم قرآن کریم کی فصاحت اور حسن کلام پر گرفت حاصل نہیں کرسکتے، یوں قرآن بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کلامِ الہٰی ہے۔
اسی لیئے سورۃ بقرہ کے حروف مقطعات کے فوراً بعد جو آیت ہے اس میں معجزہ قرآن اور کلام الہی کی ثقاہت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔
الم (١) ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (٢ )
" یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ "
(سورۃ البقرہ آیات 1 تا 2)

قرآن کی عظمت:

ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ ابن تیمیہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت(الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا آیت(المص کتاب انزل الیک) الخ یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت (الر کتاب انزلنا الیک) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت(الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرماتا ہے آیت(حم تنزیل من الرحمن الرحیم) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت(حمعسق کذلک یوحی الیک) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالٰی غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔
از .
بینجامن  مہر  

Tuesday, September 27, 2016

kya quran umrao-qais shahir se chori kiya gaya ?

فیض, ابنِ انشاء اور سیّد امجد حسین
 :اعتراض
قرآن کی کچھ آیتیں  عرب کے ایک "مشہور" شاعر امراؤ القیس کی شاعری سے لی گئی ہیں  




تحریر : محمّد سلیم
فیض احمد فیض اردو شاعری میں ایک بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ۔ مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ فیض احمد فیض نے اپنے دو شعری مجموعے "بادِ صبا" اور "زنداں نامہ" ابنِ انشاء سے لکھوائے تھے ؟ یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض احمد فیض جیل میں تھے ۔ جیل میں فیض صاحب کو تمام سہولیات میسر تھیں مگر ان کو لکھنے کے لئے کاغذ اور قلم نہیں دیا جاتا تھا ۔ لہٰذا اپنے ادبی مستقبل کو تاریکی سے بچانے کے لئے انشاء جی کی خدمات لیں اور ان کے لکھے ہوئے دو مجموعے اپنے نام سے شائع کروا لئے ۔
آپ لوگ حیران ہو رہے ہیں مگر یہ بات خود ابنِ انشاء نے اپنی کتاب "خمارِ گندم" کے مضمون "فیض اور میں" میں بیان کی ہے ۔ لیکن اگر آپ "خمارِ گندم" کا سرورق ملاحضہ کریں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔ خمارِ گندم انشاء جی کی طنز و مزاح پہ مبنی کتاب ہے اور چونکہ یہ بات اس کتاب کے سرورق پہ لکھ دی گئی ہے لہٰذا کوئی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔
مگر اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو طنز و مزاح پہ مبنی کتابیں لکھتے ہیں مگر ان کے سرورق پہ یہ بات اجاگر کرنا بھول جاتے ہیں کہ یہ کتاب محض ہنسنے ہنسانے کے لئے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایسے ہی ایک صاحب سیّد امجد حسین ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں ایک کتاب "قرآن اور اس کے مصنفین" لکھی مگر سرورق پہ "طنز و مزاح" لکھنا بھول گئے ۔ اور ملحدوں کے کچھ بچوں نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ۔
ملحدوں کے گروپ میں ایک پوسٹ کی گئی ہے جس میں سیّد امجد حسین کی کتاب سے متاثر ہو کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کی کچھ آیتیں (شائد چار یا پانچ) عرب کے ایک "مشہور" شاعر امراؤ القیس کی شاعری سے لی گئی ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قرآن چار یا پانچ آیتوں پہ مبنی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات پر مشتمل ہے ۔ یعنی اگر اس کو مکمل کرنے والے نے شاعری ہی ادھر ادھر سے چرانی تھی تو کم از کم ہزار شاعروں کی شاعری سے پانچ پانچ مصرعے لئے جاتےتو قرآن مکمل ہوتا ۔ مگر پھر ایک مسئلہ اور ہے ۔ شاعری کی سمجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر شاعر کا رنگِ کلام مختلف ہوتا ہے ۔ خود انشاء جی اور فیض کے رنگِ کلام میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ مگر قرآن کا رنگِ کلام شروع سے آخر تک ایک جیسا ہی ہے ۔ کسی بھی مقام پہ اس کے پڑھنے والے کو یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک سے زیادہ مصنفین کا کلام ہے ۔ ملحدین کے لئے سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت کی کوئی ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جس پہ مکمل قرآن کو لکھنے کا سہرا باندھا جا سکے ۔ ورقہ بن نوفل کو قرآن کا مصنف کہا جاتا ہے تو مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل کی زندگی میں صرف سورہ علق کی چند ابتدائی آیات اور سورہ مدثر کی ابتدائی آیت نازل ہوئیں پھر وہ انتقال کر گئے ۔ اب ایک اور نام میں پہلی بار سن رہا ہوں کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے سے شائد تیس سال پہلے ایک شاعر ہوا کرتا تھا جس نے کچھ ایسے شعر لکھ رکھے تھے جو من و عن قرآن کی کچھ آیتوں میں موجود ہیں ۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اس شاعر کا نام پہلی بار سنا ہے ۔ اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا موصوف کے کچھ اشعار میں اور قرآن کی کچھ آیات میں حد درجے مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ان آیات پر بھی بات ہو گی ۔
امراؤ قیس کے بارے میں جو مبہم سی معلومات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق وہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ سال پہلے انتقال کر گیا ۔ کتنے سال پہلے ؟ اس میں مختلف آراء ہیں کچھ کے مطابق تیس سال پہلے کچھ کے مطابق چالیس سال پہلے ۔ امراؤ قیس پیدا کب ہوا اس پر بھی کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی ۔ اس بارے میں بھی مختلف آراء ہیں ۔ امراؤ قیس کا مذہب کیا تھا اس بارے میں بھی دو آراء ہیں ۔ ایک کے مطابق وہ بت پرست تھا دوسری کے مطابق عیسائی ۔ جو واحد بات یقین سے ملحدوں میں کہی جاتی ہے وہ یہ کہ مذکورہ شاعری اسی کی ہے اور مکمل محفوظ ہے ۔ کہاں محفوظ ہے ؟ مجھے کیا پتہ ۔ یہ تو معترضین ہی بتا سکتے ہیں ۔ میں تو آپ کو بس اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ جس مذہب سے امراؤ القیس کا تعلق بتایا جاتا ہے اس کی الہامی کتاب بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے روز تین بج کر پندرہ منٹ پر پھانسی دی گئی تھی ۔ اور یہ بات بائبل میں بقول عیسائیوں کے دو ہزار سال سے لکھی ہوئی ہے جب گھڑی بھی ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ بائبل کے جتنے بھی ایڈیشن موجود ہیں سب ابک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ مگر سب کے بارے میں یہی دعویٰ ہے کہ وہ ﷲ کی طرف سے دو ہزار سال پہلے نازل کئے گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ﷲ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کو محفوظ نہ رکھ سکے انہوں نے ایک عام شاعر کی شاعری کو چودہ سو سالوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ سبحان ﷲ ۔
جن آیات کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
قرآن( سوره القمر ايه 1 ):
"اقترب الساعة و انشق القمر "
ترجمہ:قیامت قریب آنپنچی اور چاند شق ہو گیا
قران(سورہ القمر ایه 29)
‘‘فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ۔’’
ترجمہ : تو ان۔لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے (اونٹنی کی ) کونچیں کاٹ۔ڈالیں ۔
قران(سورہ القمر ایه 31)
‘‘فَكَانُوا كَهَشِيمِ المُحْتَظِرِ .’’
ترجمہ : تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔
۔ (اس آیت کا مکمل ترجمہ : اور ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔)
قران(سوره الضحیٰ آیه 1،2)
‘‘وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى .’’
ترجمہ : سورج کی روشنی کی قسم ۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے ۔
قرآن( سوره الصافات ايه 61 ):
لمثل هذا فليعمل العاملون
ترجمہ : ایسی ہی نعمتوں کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں ۔
قرآن(سوره عبس ايه ١٧ ):
قتل الانسان ما أكفره
ترجمہ : انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے ۔
قران( سوره الزلزله ايه ١ و ٢ ):
اذا زلزلت الارض زلزالها، واخرجت الارض اثقالها
ترجمہ:جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی،
اور زمین اپنے (سب) بوجه نکال باہر پهینکے گی ۔
اب ذرا تھوڑی سی بات اس شاعر کے کردار کے حوالے سے بھی ہو جائے ۔ وکی پیڈیا اور دوسری ویب سائٹس پر مذکورہ شاعر کے متعلق جو معلومات دی گئی ہیں ان میں ایک قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ اس شاعر کو اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا ۔
کیوں نکال دیا تھا ؟
تمام ویب سائٹس پر اس کو گھر سے نکالنے کی تین وجوہات بتائی گئی ہیں ۔
1 ۔ شراب نوشی
2 ۔ لڑکیوں میں دلچسپی
3 ۔ شہوت انگیز شاعری (Erotic poetry(
زیادہ تر ویب سائٹس کے مطابق تیسری وجہ نے اس کو گھر سے نکلوانے میں زیادہ اہم کردار ادا کیا ۔
اب آجاتے ہیں اس کی شاعری کی طرف جس کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس شاعر کا کلام تھا جو قرآن نے چوری کر لیا ۔
"قیامت قریب آنپنچی اور چاند شق ہو گیا ۔
تو ان۔لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے (اونٹنی کی ) کونچیں کاٹ۔ڈالیں ۔
اور ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔ سورج کی روشنی کی قسم ۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے ۔ایسی ہی نعمتوں کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں ۔
انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے ۔
جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی،
اور زمین اپنے (سب) بوجه نکال باہر پهینکے گی ۔"
اس شاعری کو غور سے بار بار پڑھیں ۔ کیا آپ کو یہ کسی ایسے شخص کا کلام لگتا ہے جس کو اس کے باپ نے شراب نوشی اور شہوت انگیز شاعری کی بناء پر گھر سے نکال دیا تھا ؟ بلکہ مجھے یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا آپ کو یہ شاعری کسی بھی انسان کی لگتی ہے ؟
کوئی شرم ہوتی ہے ۔ کوئی حیا ہوتی ہے ۔ ملحدوں نے کیا عقل بیچ کر چنے کھا لئے ؟ افسوس اس چنے والے پر جس نے ان کو ان کی عقل کے بدلے چنے بھی عنایت کر دیئے ۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ملحد چولوں میں ترقی کر رہے ہیں ؟ پہلے چھوٹی چھوٹی چولیں مارتے تھے اب اتنی بڑی چول ؟ کیا چولوں میں ارتقاء ہو رہا ہے ؟ مرزا قادیانی کو بھی مشورہ دے آؤ ۔ وہ بھی دیوانِ غالب چوری کرے اور دعویٰ کر دے کہ یہ خدائی کلام مجھ پر نازل ہوا ہے ۔ ملحدوں نے اس پر بھی یقین کر لینا ہے ۔
لیتا ۔ نہ اگر دل تمہیں دیتا ۔ کوئی دم چین
کرتا ۔ جو نہ مرتا ۔ کوئی دن آہ و فغاں اور
غالب نے تو اسی قسم کی شاعری کی ہے ۔ کسی شاعر کا اتنا دماغ خواب نہیں ہوتا کہ اپنی شاعری میں دعویٰ کرے کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں میں نے کاٹیں یا ان پر جو چیخ کا عذاب آیا وہ میں لے کر آیا ۔ کم از کم مرزا غالب نے تو ایسا ایک بھی شعر نہیں کہا ۔
انشاء جی سے مدد لیجئے ۔
دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاء جی کیا مال لئے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ ؟
انشاء جی نے بھی ایسا کوئی شعر نہیں کہا جس میں لکھا ہو کہ ہلاک ہوا وہ شخص جس نے انکار کیا ۔
ابھی نو سو اٹھانوے شاعر اور ڈھونٹنے ہیں ۔ اقبال کی شاعری تو خود قرآن سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔
سچ کہا ہے کسی نے نے ۔گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھا عالم نہیں بن جاتا ۔ اگر ملحد امجد حسین یا اس کا شاگرد ترجمہ پڑھ لیتا تو شائد اس کو سمجھ آ جاتی کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو کیسے سکتا ہے ؟





عجیب لوگ ہیں یہ۔ ٹسڈل سے کاپی کرتے ہیں اور ٹسڈل ہی اپنی اگلی کتاب میں اپنے بیان سے مکر جاتا ہے اور اپنے الفاظ 
واپس لیتا ہے۔ دیکھیے اس کی اگلی کتاب میں سے اقتباس 

Page 47-49, "Appendix to Chapter II" quoted here in full:

It is sometimes said in the East at the present day that Muhammad not only adopted many of the ancient habits and religious rites of the heathen Arabs and incorporated them into Islam, but that he was also guilty of plagiarism in borrowing parts of certain verses of Imrau'l Qais, an ancient Arabic poet. These, it is asserted, may still be found in the Qur'an. I have even heard a story to the effect that one day when Fatimah, Muhammad's daughter, was reciting the verse "The Hour has come near and the Moon has split asunder" (Surah LIV., Al Qamar, 1), a daughter of the poet was present and said to her, "That is a verse from one of my father's poems, and your father has stolen it and pretended that he received it from God." This tale is probably false, for Imrau'l Qais died about the year 540 of the Christian era, while Muhammad was not born till A.D. 570, "the year of the Elephant."
In a lithographed edition of the Mu`allaqat, which I obtained in Persia, however, I found at the end of the whole volume certain Odes there attributed to Imrau'l Qais, though not recognized as his in any other edition of his poems which I have seen. In these pieces of doubtful authorship I found the verses quoted below.Though they contain some obvious blunders, I think it best to give them without correction. The passages marked with a line above them occur also in the Qur'an (Surah LIV., Al Qamar, 1, 29, 31, 46; Surah XCIII., Adduba', 1; Surah XXI., Al Anbiya 96; Surah XXXVII., As Saffat, 59), except that in some of the words there is a slight difference though the meaning is the same. It is clear therefore that there is some connexion between these lines and the similar verses of the Qur'an.



مگر یہ الحادی جھوٹ کے پلندے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔۔۔۔! کوئ شرم ہوتی ہے کوئ حیا ہوتی ہے۔



Bottom of Form

Monday, September 19, 2016

quran me bar bar surah banane ka challenge kiyu badlta raha ?

سوال  :
یہ جو قرآن کی مثل پیش کرنے کا چیلنج تھا , میں نے سنا ہے کہ قرآن نے بار بار اس چیلنج کو بدلا ۔ اس کے پیچھے بقول معترضین , وجہ یہ تھی کہ جب 1 سورہ بنانے کا چیلنج دیا گیا تو وہ
پیش کر دی گئی, اس کے بعد اس چیلنج کو بڑھا کر 10 سورہ بنانے کا چیلنج دیا گیا ,
راہنمائی فرمائیں ,
یہ چیلنج اگر قبول نہیں ہوا تھا, یا ا سکا جواب نہیں دیا گیا تھا تو مزید چیلنج کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟




تعاقب

بعض مشرکین یہ الزام لگاتے تھے کہ محمد رسول اللہ (ﷺ) نے خود یہ قرآن گھڑ لیا ہے۔

اللہ تعالی نے عربوں کو سورہ بنی اسرائیل کی مندرجہ ذیل آیت میں چیلنج کی: 

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الإنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (٨٨)

"
اے نبی (ﷺ) !) کہ دیجیئے اگر سب انسان اور جن اس بات پر جمع ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل بنا لائیں تو وہ اس جیسا نہیں لاسکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں۔ " 

پھر اس چیلنج کو سورۃ ھود کی حسب ذیل آیت کے ذریعے سے آسان بنا دیا گیا:

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (١٣)

"
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے ( اپنے پاس سے ) یہ (قرآن) گھڑ لیا ہے؟ ( سو اے نبی! ()) کہ دیجیئے: پھر لے آؤ تم بھی دس سورتیں ویسی ہی گھڑی ہوئی اور ( مدد کیلئے ) بلا لو جسے تم بلا سکو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔ " 

 
سورۃ ھود 11 آیت 13

بعد میں سورۃ یونس کی مندرجہ ذیل آیت میں چیلنج کو آسان تر بنا دیا گیا:

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٣٨٩)

"
کیا وہ ( کافر ) کہتے ہیں کہ اس ( رسول ) نے اسے گھڑ لیا ہے ؟ ( اے نبی! )کہ دیجیئے: تم تو اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ ( مدد کے لیے ) اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ " 

)
سورۃ یونس 10 آیت 38 (

آخر کار سورۃ بقرہ میں اللہ تعالی نے اس چیلنج کو مزید آسان بنا دیا اور یہ کہا:

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤)
"
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا تو تم اس جیسی ایک سورت ہیلے آؤ، اور بلا لاؤ اپنے حمایتیوں کو سوائے اللہ کے، اگر تم سچے ہو، پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم کر بھی نہیں سکتے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ( اور جو ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ " 

)
سورۃ البقرہ 2 آیات 23 تا 24 (

یوں اللہ تعالی نے اپنے چیلنجوں کو انتہائی آسان بنا دیا۔ یکے بعد دیگرے نازل ہونے والی آیات قرآن کے زریعے سے پہلے مشرکوں کو چیلنج دیا گیا کہ وہ قرآن جیسی کوئی کتاب لاکر دکھائیں، پھر ان سے کہا گیا کہ قران کی سوروں جسی دس سورتیں لاکر دکھا دو اور آخر میں انہیں چیلنج کیا گیا کہ چلو قرآنی سورتوں سے ملتی جلتی کوئی ایک ہی سورت پیش کردو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سورۃ بقرہ کی آیات نمبر 23 اور 24 ( جو بعد میں نازل ہوئیں ) پہلی تین آیات سے متضاد ہیں، تضاد سے مراد ایسی دو چیزوں کا ذکر ہے جو بیک وقت موجود نہیں ہوسکتیں یا آبیک وقت وجود میں نہیں آسکتیں۔

قران کریم کی پہلی ایات، یعنی منسوخ آیات اب بھی کلام الہٰی ہیں اور ان میں بیان کردہ ہدایت آج بھی عین حق ہے، مثال کے طور پر یہ چیلنج کہ قرآن جیسا کلام لا کر دکھاؤ، آج بھی برقرار ہے، اسی طرح عین قرآن جیسی 10 سورتیں یا ایک سورت پیش کرنے کا چیلنج بھی بدستور قائم ہے اور قرآن کریم سے کسی حد تک ملتی جلتی ایک ہی سورت لانے کا چیلنج بھی برقرار ہے۔ یہ چیلنج سابقہ چیلنجوں کے منافی نہیں لیکن یہ دوسرے چیلنجوں کے مقابلے میں آسان ہے۔ اگر آخری چیلنج کا جواب بھی نہیں دیا جاسکتا تو کسی شخص کیلئے باقی تین مشکل چیلنجوں کا جواب دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

فرض کیجیئے میں کسی شخص کے بارے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اتنا کند ذہن ہے کہ وہ سکول میں دسویں جماعت پاس کرنے کے قابل بھی نہیں، بعد ازاں میں کہتا ہوں کہ وہ پانچویں جماعت بھی پاس نہیں کرسکے گا۔ آخر میں میں کہتا ہوں کہ وہ اتنا نالائق ہے کہ کے جی بھی پاس نہیں کرسکے گا جبکہ سکول میں داخلے کے لیے کےجی، یعنی کنڈر گارٹن میں کامیابی لازم ہے، گویا بالفعل میں یہ کہ رہا ہوں کہ مذکورہ شخص اتنا کند ذہن ہے کہ وہ کے جی پاس کرنے کے قابل بھی نہیں۔ میرے چاروں بیانات ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے، لیکن میرا چوتھا بیان اس طالب علم کی ذہنی استعداد کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی طالب علم کے جی کلاس پاس نہیں کرسکتا تو اس کے لیئے پہلی جماعت، پانچویں جماعت یا دسویں جماعت پاس کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یوں اللہ کے چیلنج اور آیات میں کوہ تعارض نہیں۔ واللہ اعلم

سوال  :

علمی بد دیانتی یا غلطی؟ __________
میری گزارش یہ ہے کہ اولین چیلنج سورت یونس میں دیا گیا اور ایک سورہ بنانے کا کیا گیا, ترتیب نزول کے اعتبار سورہ یونس مکی سورہ ہے اور اسکا نزولی ترتیب کا نمبر 51 ہے,
جبکہ سورہ ھود , جو کہ مکی ہے, اور اسکا ترتیب نزول میں نمبر 52 ہے, اور اسی 52 نمبر میں 10 آیات کا چیلنج دیا گیا ۔
میں علماء کرام کے متعلق حسن ظن رکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ مجھ جیسے کم علموں کو , خالی خولی مطمئن کرنے کی غرض سے , علمی بد دیانتی کے مرتکب نہیں ہونگے ۔

تعاقب

ترتیب کا ثبوت۔ 
سورہ بنی اسرائیل جس میں قرآن کی مثل کا چیلنج دیا گیا، پھر سورہ ہود میں کم کر کے ایک سورت کیا گیا یہ دونوں مکی سورتیں ہیں اور مکہ میں نازل ہوئیں ہجرت سے پہلے۔ 
جبکہ 
سورۃ بقرہ جس میں چیلنج کو مزید کم کر کے ایک سورۃ کیا گیا یہ مدنی سورۃ ہے اور بعد میں مدینہ میں نازل ہوئ۔ 
پس ثابت ہوا کہ پہلے چیلنج بڑا دیا گیا، یہ بھی پورا نہ کر سکے تو اس کو کم کر کے آسان کر دیا گیا اور وہ یہ بھی نہ کر سکے۔ 


سوال  :

یاد رہے کہ اولین دونوں چیلنج مکہ میں دئے گئے , جبکہ آخرالذکر سورہ بقرہ والا چیلنج, ہجرت کے بعد نئے سرے سے, نئے مخاطبین کو دیا گیا , جنہیں پھر سے 1 سورہ بنانے کا کہا گیا

تعاقب

محترم ! معزرت کے ساتھ   
تو محترم پہلی بات " دو چیلنج نہیں تین چیلنج ہیں مکہ میں۔ 
پہلا چیلنج سورہ بنی اسرائیل میں ہے پورا قرآن بنانے کا۔ اس سے آپ کیوں شروعات نہیں کر رہے۔ کہ پہلے پورے قرآن کا چیلنج دیا ۔۔۔۔ اس کے بعد رعایت کر کے کم کیا گیا ؟ اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ یہ بتائیں پھر آگے چلتے ہیں۔

جاری ہے 

بینجامن مہر 

benjamin mahr