CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Thursday, October 6, 2016

zamin o asmaan ki takhliq 6 ya 8 din


اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 3
افلاک و ارض کی تخلیق چھ یا آٹھ روز میں؟
" قرآن کئی مقامات پر یہ بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا کئے گئے، لیکن سورۃ فُصِلت ( حم السجدہ ) میں کہا گیا کہ زمین و آسمان 8 دنوں میں بنائے گئے، کیا یہ ایک تضاد نہیں؟ اسی آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی اور پھر اس کے بعد آسمان 2 دنوں میں پیدا کیئے گئے،"
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ قرآن کے مطابق آسمان اور زمین 6 دنوں، یعنی چھ ادوار میں پیدا کئے گئے ۔ اس کا ذکر حسب ذیل سورتوں میں آیا ہے:
٭ سورۃ اعراف کی آیت 54
٭ سورۃ یونس کی آیت 3
٭ سورۃ ہود کی آیت 7
سورۃ فرقان کی آیت 59
٭ سورۃ سجدی کی آیت 4
٭ سورۃ ق کی آیت 38
٭ سورۃ حدید کی آیت 4
وہ آیاتِ قرآنی جو آپ کے خیال میں یہ کہتی ہیں کہ آسمان و زمین آٹھ دنوں میں پیدا کیے گئے ، وہ 41 ویں سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) کی آیاات: 9 تا 12 ہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ :
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٩)وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (١٠)ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلأرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١١)فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (١٢)
" ( اے نبی! ) ان سے کہیئے: کیا تم واقعی اس ذات سے انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا؟ وہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس نے اس ( زمین ) میں اس کے اوپر پہاڑ جما دیئے، اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں غذاؤں کا ( ٹھیک ) اندازہ رکھا۔ یہ ( کام ) چار دنوں میں ہوا، پوچھنے والوں کے لیے ٹھیک ( جواب ) ہے، پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے اس (آسمان ) سے اور زمین سے کہا: وجود میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو، دونوں نے کہا: ہم آگئے، فرمانبردار ہوکر۔ تب اس نے دونوں کے اندر انہیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کاکام الہام کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں ( ستاروں ) سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب ایک بہت زبردست، خوب جاننے والے کی تدبیر ہے۔ "
( سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) 41 آیات 9 تا 12)
قرآن کریم کی ان آیات سے بظاہر یہ تاثر ملا ہے کہ آسمان اور زمین 8 دنوں میں پیدا کیے گئے۔
اللہ تعالی اس آیت کے شروع ہی میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عبارت کے اس ٹکڑے میں موجود معلومات کو اس کی صداقت کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، درحقیقت وہ کفر پھیلانے میں دلچسپی رکھتے اور اس کی توحید کے منکر ہیں۔ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہی ہمیں بتا رہا ہے کہ بعض کفار ایسے بھی ہوں گے جو اس ظاہری تضاد کو غلط طور پر استعمال کریں گے۔
" ثُم " سے مراد " مزید برآں "
اگر آپ توجہ اور احتیاط کے ساتھ ان آیات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں زمین اور آسمان کی دو مختلف تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کو چھوڑ کر زمین دو دنوں میں پیدا کی گئی۔ اور 4 دنوں میں پہاڑوں کو زمین پر مضبوطی سے کھڑا کیا یگا اور زمین میں برکتیں رکھ دی گئیں اور نپے تلے انداز کے مطابق اس میں رزق مہیا کردیا گیا۔ لہذا آیات: 9 اور 10 کے مطابق پہاڑوں سمیت زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی، آیات: 11 اور 12 کہتی ہیں کہ مزید برآں دو دنوں میں آسمان پیدا کئے گئے ، گیارہویں آیت کے آغاز میں عربی کا لفظ " ثُم " استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب پھر یا مزید برآں ہے، قران کریم کے بعض تراجم میں " ثُم " کا مطلب پھر لکھا گیا ہے۔ اور اس سے بعد ازاں مراد لیا گیا ہے۔ اگر " ثُم " کا ترجمہ غلط طور پر " پھر " کیا جائے تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے کل ایام آٹھ قرار پائیں گے اور یہ بات دوسری قرآنی آیات سے متصادمم ہوگی جو یہ بتاتی ہے کہ آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیئے گئے ، علاوہ ازیں اس صورت میں یہ آیت قرآن کیرم کی سورۃ الانبیاء کی 30 ویں آیات سے بھی متصادم ہوگی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین و آسمان بیک وقت پیدا کئے گئے تھے۔
لہذا اس آیت میں لفظ " ثم " کا صحیح ترجمہ " مزید برآں " یا " اس کے ساتھ ساتھ " ہوگا۔
علامہ عبداللہ یوسف علی نے صحیح طور پر " ثؐم " کا ترجمہ " مزید برآں (Moeover) " کیا ہے جس سے واضح طور پر ییہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب پہاڑوں وغیرہ سمیت چھ دنوں مین زمین پیدا کی گئی تو بیک وقت اس کے ساتھ ہی دو دنوں میں آسمانن بھی پیدا کیئے گئے تھے، چنانچہ کل ایام تخلیق آٹھ نہیں چھ ہیں۔
فرض کیجیئے ایک معمات کہتا ہے کہ وہ 10 منزلہ عمارت اور اس کے گرد چار دیواری 6 ماہ میں تعمیر کردے گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمارت کا تہ خانہ 2 ماہ میں تعمیر کیا گیا اور دس منزلوں کی تعمیر نے 4 مہینے لیے اور جب بلڈنگ اور تہ خانہ بیک وقت تعمیر کیئے جاررہے تھے تو اس نے ان کے ساتھ ساتھ عمارت کی چار دیواری کی بھی تعمیر کردی جس میں دو ماہ لگے۔ اس میں پہلا اور دوسرا بیان باہم متصادم نہیں لیکن دوسرے بیان سے تعمیر کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ اس مثال میں سرت من البصرة الی بغداد و سرت الی الکوفة فی خمسةعشر یوماً کہ میں نے بصرہ سے بغداد تک کی منزل کو دس روز میں تمام کیا اور کوفہ تک پندرہ دن میں تمام کیا، چونکہ متصل ایک ہی قسم کا سفر تھا اس لیے مجموعی مدت لگائی گئی زبان نہ جاننے سے ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں.

aitraaz : 2 mashriq 2 magrib

اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 4
کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟
" قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ کہا گیا کہ اللہ دو مشرقوں اور مغربوں کا آقا و مالک ہے ۔ آپ کے نزدیک اس آیتِ قرآنی کی سائنسی تعبیر کیا ہے؟ "
قرآن کہتا ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے، قرآن کریم کی وہ آیت جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے :
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (١٧)
"( وہی ) مشرقین ( دو مشرق ) اور مغربین ( دو مغرب ) کا رب ہے۔ "
( سورۃ الرحمن 55 آیت 17)
عربی متن میں مشرق و مغرب کے الفاظ تثنیہ کی شکل میں استعمال کیئ گئے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے۔
مشرق و مغرب کی انتہا :
جغرافیے کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور لیکن اس کے طلوع ہونے کا مقام سارا سال تبدیل ہوتا رہتاہے۔ سال میں دو دن، 21 مارچ اور 23 ستمبر ، جو اعتدال ربیعی و خریفی (Equinox) کے نام سے معروف ہیں، ایسے ہیں جب سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے، یعنی خط استوا پر سفر کرتا ہے، باقی تمام دنوں میں عین مشرق سے قدرے شامل یا قدرے جنوب کی طرف ہٹ کر طلوع ہوتا ہے۔ موسم گرما کے دوران میں 22 جون کو سورج مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے ( خط سرطان پرسفر کرتا ہے ) تو موسم سرما میں بھی ایک خاص دن، یعنی 22 دسمبر کو سورج مشرق کی دوسری انتہا سے نکلتا ہے۔ ( خط جدی پر سفر کرتا ہے )۔ اس طرح سورج موسم گرما میں ( 22 جون ) اور موسم سرما میں ( 22 دسمبر ) کو مغرب میں دو مختلف انتہاؤں پر غروب ہوتا ہے۔
حاشیہ:
زمین خط استوا کا عرض بلد صفر ہے جو زمین کو دو برابر نسٖ کروں میں تقسیم کرتا ہے۔ خط استوا کے شمال میں خط سرطان کا عرض بلد 23.5 درجے شمالی ہے اور خط استوا کے جنوب میں خط جدی کا عرض بلد 23.5 درجے جنوبی ہے، سورج بظاہر انہی دو عرض بلاد کے درمیان نظر آتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمین کی محوری گردش ( لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کو گھومنے) کے دوران میں سال کے مختلف اوقات میں اس مختلف مقامات سورج کے براہ راست سامنے آتے ہیں۔ سال میں دو بار 21 مارچ اور 23 ستمبر کو سورج خط استوا پر عموداً جمکتا ہے ( بظاہر خط استوا پر سفر کرتا نظر آتا ہے ) جبکہ 22 جون کو سورج کی شعاعیں خط سرطان پر عموداً پڑتی ہیں اور 22 دسمبر کو سورج خط جدی پر عموداً چمکتا ہے ( محسن فارانی))۔ فطرت کا یہ مظاہرہ کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں یا کسی بلند و بالا عمارت سے سورج کے اس طلوع و غروب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگ دیکھیں گے کہ سورج گرمیوں میں 22 جون کو مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے تو سردوں میں 22 دسمبر کو ایک دوسری انتہا سے ، مختصر یہ کہ سارا سال سورج مشرق کے مختلف مقامات سے نکلتا ہے اور مغرب کے مختلف مقامات پر غروب ہوتا رہتا ہے۔
لہذا جب قرآن اللہ کا ذکر دو مشرقوں اور دو مغربوں کے رب کے طور پر کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مشرق و مغرب دوں کی دونوں انتہاؤں کا رب اور مالک ہے۔
تمام نقاطِ و مقامات کا مالک اللہ ہے :
اللہ تعالی مشرق و مٖغرب کے تمام نقاطِ و مقامات کا مالک ہے، عربی میں جمع کے صیغے کی دو اقسام ہیں۔ ایک جمع تثنیہ ہے، یعنی دو کی جمع اور دوسری قسم وہ ہے جس میں دو سے زیادہ کی جمع مراد ہوتی ہے۔ سورۃ رحمن کی 17 ویں آیت میں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں جن کا صیغہ جمع تثنیہ ہے اور ان سے مراد دو مشرق اور مغرب ہیں۔ قرآن کریم کی حسب ذیل آیت دیکھیئے۔
فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (٤٠)
" پس میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی "
(سورۃ المعارج 70 آیت 40)
اس میں مشرق اور مغرب کی جمع کے لیئے مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ جمع کے صیغے ہیں اور دو سے زیادہ کی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ذکر مشرق اور مغرب کے تمام مقامات کا مالک ہونے کے علاوہ مشرق و مغرب کے دو انتہائی مقامات کے رب اور 
مالک کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔

aitraaz : allah ne kafiro per muhr laga di ?


اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 8.
کفار کے دلون پر مہر لگنے کے بعد وہ قصور وار کیوں؟
" اگر اللہ نے کافروں، یعنی غیر مسلموں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو پھر انہیں اسلام قبول نہ کرنے کا قصور وار کیسے ٹہرایا جاسکتا ہے؟
اللہ تعالی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 6 اور 7 میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦)خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧)
" بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے، خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کیرں، بہرحال وہ ایمان لانے والے نہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ "
(سورۃ البقرہ 2 آیات 6 ا تا 7)
یہ آیات عام کفار کی طرف اشارہ نہیں کرتیں جو ایمان نہیں لائے۔ قرآن کریم میں ان کے لیئے (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی وہ لوگ جو حق کو رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نبئ کریم (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ کہ
" تم خبردار کرو یا نہ کرو، یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ عالی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں نہ ایمان لاتے ہیں، بلکہ معاملہ برعکس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کفار بہرصورت حق کو مسترد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں، وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اي لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئ ہے اور آنکھوں پر پردہ ہے۔ لہذا اس کا ذمہ دار اللہ نہیں بلکہ کفار خود ہیں۔
حاشیہ:
اللہ تعالٰی کی طرف گمراہ کرنے یا کی نسبت اس لیے درست نہیں کہ اللہ تعالی نے انبیاء و رسل بھیج کر اور آسمانوں سے کتابیں نازل فرما کر انسانوں کے لیے راہِ حق واضح کردی۔ اب جنہوں نے حق قبول کیا وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ٹھہرے اور جنہوں نے حق سے منہ موڑا اور انبیاء و رسل کو ستایا، اللہ نے انہیں گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور حق کی توفیق نہ دی۔
ایک مثال سے وضاحت :
فرض کیجیئے ایک تجربہ کار استاد آخری ( فائنل ) امتحانات سے قبل یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ فلاں طالب علم امتحان میں فیل ہوجائے گا، اس لیے کہ وہ بہت شریر ہے، سبق پر توجہ نہیں دیتا اور اپنے ہوم ورک بھی کرکے نہیں لاتا۔ اب اگر وہ امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اس کا قصور وار کسے ٹھہرایا جائےگا۔ استاد کو یا طالب علم کو؟ استاد کو صرف اس وجہ سے کہ استاد نے پیشگوئی کردی تھی۔ اس لیے اسے طالب علم کی ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح اللہ تعالی کو یہ بھی پیشگی علم ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے حق کو ٹھکرانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی اس لئے انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کر لیا تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ نے انسان کو نیکی و بدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی اس کو اختیار دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ اگر وہ نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے اور اگر وہ بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی رمق باقی ہی نہیں رہتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور کیونکہ مہر لگانے کا قانون اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اس لئے اس قانون کے تحت مہر لگنے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے
مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے؟
اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک مقام پر فرمایا :
آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا
ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ) 27-النمل:14) 
اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کر دیا جن پر ان کے دل یقین کر چکے تھے
پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟
سورة الجاثية
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے
سورة الأعراف
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے
سورة المنافقون
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس برے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے
سورة الكهف
اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے اِسی طرح اللہ ہر متکر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے
سورة غافر﴿٣٥﴾
مہرکیوں اور کب لگتی ہے؟
انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ قوتیں عطا فرمائی ہیں۔
انسان کی ہدایت کےلئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے؟
اس سے بھی بدتر صورت حال ..............
ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آیت (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14؀) 83-المطففين:14)
(ترمذی، ابو اب التفسیر)
______________________
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔
_______________________
مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کیوں؟ ...
اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیوں کیا ....
جواب یہ ہے
کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہو جائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔
۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ) 61۔ الصف:5)
یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے
(وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ) 6۔ الانعام:110)
ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔