اسلام
پر اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 4
کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟
" قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ کہا
گیا کہ اللہ دو مشرقوں اور مغربوں کا آقا و مالک ہے ۔ آپ کے نزدیک اس آیتِ قرآنی
کی سائنسی تعبیر کیا ہے؟ "
قرآن کہتا ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو
مغربوں کا رب ہے، قرآن کریم کی وہ آیت جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے :
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ
الْمَغْرِبَيْنِ (١٧)
"( وہی ) مشرقین ( دو مشرق ) اور
مغربین ( دو مغرب ) کا رب ہے۔
"
( سورۃ الرحمن 55 آیت 17)
عربی متن میں مشرق و مغرب کے الفاظ تثنیہ
کی شکل میں استعمال کیئ گئے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو
مغربوں کا رب ہے۔
مشرق و مغرب کی انتہا :
جغرافیے کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ
سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور لیکن اس کے طلوع ہونے کا مقام سارا سال تبدیل ہوتا
رہتاہے۔ سال میں دو دن، 21 مارچ اور 23 ستمبر ، جو اعتدال ربیعی و خریفی (Equinox) کے نام
سے معروف ہیں، ایسے ہیں جب سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے، یعنی خط استوا پر سفر
کرتا ہے، باقی تمام دنوں میں عین مشرق سے قدرے شامل یا قدرے جنوب کی طرف ہٹ کر طلوع
ہوتا ہے۔ موسم گرما کے دوران میں 22 جون کو سورج مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے (
خط سرطان پرسفر کرتا ہے ) تو موسم سرما میں بھی ایک خاص دن، یعنی 22 دسمبر کو سورج
مشرق کی دوسری انتہا سے نکلتا ہے۔ ( خط جدی پر سفر کرتا ہے )۔ اس طرح سورج موسم
گرما میں ( 22 جون ) اور موسم سرما میں ( 22 دسمبر ) کو مغرب میں دو مختلف انتہاؤں
پر غروب ہوتا ہے۔
حاشیہ:
زمین خط استوا کا عرض بلد صفر ہے جو زمین
کو دو برابر نسٖ کروں میں تقسیم کرتا ہے۔ خط استوا کے شمال میں خط سرطان کا عرض
بلد 23.5 درجے شمالی ہے اور خط استوا کے جنوب میں خط جدی کا عرض بلد 23.5 درجے
جنوبی ہے، سورج بظاہر انہی دو عرض بلاد کے درمیان نظر آتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ
زمین کی محوری گردش ( لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کو گھومنے) کے دوران میں سال کے
مختلف اوقات میں اس مختلف مقامات سورج کے براہ راست سامنے آتے ہیں۔ سال میں دو بار
21 مارچ اور 23 ستمبر کو سورج خط استوا پر عموداً جمکتا ہے ( بظاہر خط استوا پر
سفر کرتا نظر آتا ہے ) جبکہ 22 جون کو سورج کی شعاعیں خط سرطان پر عموداً پڑتی ہیں
اور 22 دسمبر کو سورج خط جدی پر عموداً چمکتا ہے ( محسن فارانی))۔ فطرت کا یہ
مظاہرہ کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں یا کسی بلند و بالا
عمارت سے سورج کے اس طلوع و غروب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگ
دیکھیں گے کہ سورج گرمیوں میں 22 جون کو مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے تو سردوں
میں 22 دسمبر کو ایک دوسری انتہا سے ، مختصر یہ کہ سارا سال سورج مشرق کے مختلف
مقامات سے نکلتا ہے اور مغرب کے مختلف مقامات پر غروب ہوتا رہتا ہے۔
لہذا جب قرآن اللہ کا ذکر دو مشرقوں اور
دو مغربوں کے رب کے طور پر کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مشرق و
مغرب دوں کی دونوں انتہاؤں کا رب اور مالک ہے۔
تمام نقاطِ و مقامات کا مالک اللہ ہے :
اللہ تعالی مشرق و مٖغرب کے تمام نقاطِ و
مقامات کا مالک ہے، عربی میں جمع کے صیغے کی دو اقسام ہیں۔ ایک جمع تثنیہ ہے، یعنی
دو کی جمع اور دوسری قسم وہ ہے جس میں دو سے زیادہ کی جمع مراد ہوتی ہے۔ سورۃ رحمن
کی 17 ویں آیت میں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں جن کا صیغہ
جمع تثنیہ ہے اور ان سے مراد دو مشرق اور مغرب ہیں۔ قرآن کریم کی حسب ذیل آیت
دیکھیئے۔
فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ
وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (٤٠)
" پس میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور
مغربوں کے مالک کی "
(سورۃ المعارج 70 آیت 40)
اس میں مشرق اور مغرب کی جمع کے لیئے
مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ جمع کے صیغے ہیں اور دو سے
زیادہ کی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم
میں اللہ تعالی کا ذکر مشرق اور مغرب کے تمام مقامات کا مالک ہونے کے علاوہ مشرق و
مغرب کے دو انتہائی مقامات کے رب اور
مالک کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔
مالک کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment