اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 8.
کفار کے دلون پر مہر لگنے کے بعد وہ قصور
وار کیوں؟
" اگر اللہ نے کافروں، یعنی غیر
مسلموں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو پھر انہیں اسلام قبول نہ کرنے کا قصور وار
کیسے ٹہرایا جاسکتا ہے؟
اللہ تعالی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 6 اور
7 میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ
عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦)خَتَمَ
اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ
وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧)
" بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے
لیے یکساں ہے، خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کیرں، بہرحال وہ ایمان لانے والے
نہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر
پردہ پڑ گیا ہے۔ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ "
(سورۃ البقرہ 2 آیات 6 ا تا 7)
یہ آیات عام کفار کی طرف اشارہ نہیں کرتیں
جو ایمان نہیں لائے۔ قرآن کریم میں ان کے لیئے (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ) کے
الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی وہ لوگ جو حق کو رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نبئ
کریم (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ کہ
" تم خبردار کرو یا نہ کرو، یہ
ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ عالی نے ان کے دلوں پر
مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں نہ ایمان لاتے ہیں، بلکہ معاملہ برعکس ہے، اس
کا سبب یہ ہے کہ یہ کفار بہرصورت حق کو مسترد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور آپ انہیں
تنبیہ کریں یا نہ کریں، وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اي لیے ان کے دلوں پر مہر
لگا دی گئ ہے اور آنکھوں پر پردہ ہے۔ لہذا اس کا ذمہ دار اللہ نہیں بلکہ کفار خود
ہیں۔
حاشیہ:
اللہ تعالٰی کی طرف گمراہ کرنے یا کی
نسبت اس لیے درست نہیں کہ اللہ تعالی نے انبیاء و رسل بھیج کر اور آسمانوں سے
کتابیں نازل فرما کر انسانوں کے لیے راہِ حق واضح کردی۔ اب جنہوں نے حق قبول کیا
وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ٹھہرے اور جنہوں نے حق سے منہ موڑا اور انبیاء و رسل کو
ستایا، اللہ نے انہیں گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور حق کی توفیق نہ دی۔
ایک مثال سے وضاحت :
فرض کیجیئے ایک تجربہ کار استاد آخری (
فائنل ) امتحانات سے قبل یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ فلاں طالب علم امتحان میں فیل
ہوجائے گا، اس لیے کہ وہ بہت شریر ہے، سبق پر توجہ نہیں دیتا اور اپنے ہوم ورک بھی
کرکے نہیں لاتا۔ اب اگر وہ امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اس کا قصور وار کسے
ٹھہرایا جائےگا۔ استاد کو یا طالب علم کو؟ استاد کو صرف اس وجہ سے کہ استاد نے
پیشگوئی کردی تھی۔ اس لیے اسے طالب علم کی ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا
جاسکتا۔ اسی طرح اللہ تعالی کو یہ بھی پیشگی علم ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں
نے حق کو ٹھکرانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر
لگا دی تھی اس لئے انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب
انہوں نے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کر لیا تو اللہ نے ان
کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ نے
انسان کو نیکی و بدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی اس کو اختیار دیا ہے کہ چاہے
وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ اگر وہ نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار
کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے
اور اگر وہ بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ
پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے
اندر نیکی کی رمق باقی ہی نہیں رہتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ کے قانون کے تحت
آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور کیونکہ مہر لگانے کا قانون اللہ ہی کا بنایا
ہوا ہے اس لئے اس قانون کے تحت مہر لگنے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے
مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے؟
اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں
پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ
دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک مقام پر فرمایا :
آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ) 27-النمل:14)
اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کر دیا جن پر ان کے دل یقین کر چکے تھے
آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ) 27-النمل:14)
اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کر دیا جن پر ان کے دل یقین کر چکے تھے
پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر
بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود
اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی
آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ
کوئی سبق نہیں لیتے؟
سورة الجاثية
سورة الجاثية
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین
کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں
تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے
ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے
سورة الأعراف
سورة الأعراف
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے
ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں
سمجھتے
سورة المنافقون
سورة المنافقون
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے
جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس برے
انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن
لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں
قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے تم
انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے
سورة الكهف
سورة الكهف
اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں
بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے
والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے اِسی طرح اللہ ہر متکر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا
ہے
سورة غافر﴿٣٥﴾
مہرکیوں اور کب لگتی ہے؟
انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور
دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان
لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر
رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ
قوتیں عطا فرمائی ہیں۔
انسان کی ہدایت کےلئے اللہ تعالیٰ نے
آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی
بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت
حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور
کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس
کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے؟
اس سے بھی بدتر صورت حال ..............
ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی
لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض
دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت
اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی
نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور
آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث
سے بھی ہوتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل
پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ
کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ
کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آیت
(كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14)
83-المطففين:14)
(ترمذی، ابو اب التفسیر)
______________________
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش
ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں
ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید
نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر
دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی
(جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ
الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم
ہوتی ہے۔
_______________________
مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف
کیوں؟ ...
اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان
کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف
منسوب کیوں کیا ....
جواب یہ ہے
کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہو جائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔
کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہو جائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔
۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ
قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ) 61۔ الصف:5)
یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے
یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے
(وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ
كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ
يَعْمَهُوْنَ) 6۔ الانعام:110)
ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment