CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Wednesday, August 31, 2016

25.kya quran bible ki naqal hai (urdu post)

اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 25

کیا قرآن، بائبل کی نقل ہے؟

" کیا یہ درست نہیں کہ محمد (ﷺ) نے قرآن، بائبل سے نقل کیا ہے؟ "
بہت سے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ محمد (ﷺ) نے یہ قرآن خود تصنیف کیا بلکہ انہوں نے اسے دوسرے انسانی ذرائع یا سابقہ الہامی کتب سے اخذ کیا ہے۔ ان کے اعترافات اس نوع کے ہیں:
رومی لوہار کی حقیقت
بعض مشرکین نے نبی کریم (ﷺ) پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے قرآن کریم مکہ کے نواح میں مقیم ایک رومی لوہار سے سیکھا جو مذہباً عیسائی تھا۔ نبئ کریم (ﷺ) اکثر اسے کام کرتے ہوئے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ ایک وحئ قرآن ہی اس الزام کو مسترد کردینے کیلئے کافی تھی۔ سورۃ نحل میں فرمایا گیا۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ (١٠٣)
" اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ وہ کہتے ہیں ( یقیناً) اس نبی کو ایک آمدی سکھاتا ہے۔ اس کی زبان جس کی طرف یہ غلط نسبت کرتے ہیں، عجمی ہے جبکہ یہ ( قرآن ) تو فصیح عربی زبان ہے۔ "
( سورۃ النحل 16 آیت 103)
ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان غیر ملکی تھی اور جو عربی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بمشکل عربی میں بات کرسکتا تھا۔ قرآن مجید کا ماخذ کیسے بن سکتا تھا جو خالص، فصیح و بلیغ اور شستہ عربی زبان ہے؟ یہ سمجھنا کہ کسی لوہار نے ( نعوذ باللہ ) نبئ اکرم (ﷺ) کو قرآن سکھایا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ چین سے انگلستان نقل مکانی کرنے والے ایک شخص نے جو مناسب انگریزی بھی نہیں جانتا تھا، شیکسپیئر کو پڑھایا لکھایا۔
ورقہ بن نوفل کا کردار :
محمد (ﷺ) نے خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کے رشتے دار ورقہ بن نوفل سے پڑھا، حالانکہ محمد (ﷺ) کے یہودی اور عیسائی علماء سے روابط بہت محدود تھے۔ آپ (ﷺ) جس نمایاں ترین عیسائی سے واقفیت رکھتے تھے وہ ورقہ بن نوفل نامی نابینا شخص تھے جو نبئ کریم (ﷺ) کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کے ایک رشتے دار تھے، وہ اگرچہ عربی النسل تھے لیکن انہنوں نے عیسائی مذہب اپنا لیا تھا اور وہ عہد نامہ جدید سے اچھے خاصے واقف تھے۔ نبی کریم (ﷺ) کی صرف دوبار ان سے ملاقات ہوئی، پہلی مرتبہ اس وقت جب ووقہ ( اعلان نبوت سے قبل ) کعبۃ اللہ میں عبادت کررہے تھے اور انھوں نے نبئ کریم (ﷺ) کی پیشانی پر وفور محبت سے بوسہ دیا، دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب نبئ کریم (ﷺ) پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل سے ملنے گئے۔ اس واقعے کے تین سال بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا۔ جبکہ نزول کا سلسلہ تقریباً 23 برس جاری رہا۔ یہ مفروضہ کہ قرآن مجید کی وحی کا ذریعہ ورقہ بن نوفل تھے، قطعی مضحکہ خیز مفروضہ ہے۔

اہل کتاب سے مذہبی بحثیں :
یہ بات درست ہے کہ نبئ کریم (ﷺ) کی یہودیوں اور عیسائیوں سے بحثیں ہوئیں لیکن یہ بحثیں نزول وحی کے 13 برس سے زیادہ عرصے کے بعد مدینہ منورہ میں وقوع پذیر ہوئیں۔ یہ الزام کہ یہودی اور عیسائی قرآن کا ماخذ تھے، ایک بیہودہ الزام ہے کیونکہ محمد رسول اللہ () تو ان بحثوں میں ایک معلم اور مبلغ کا کردار ادا کررہے تھے اور انہیں قبول اسلام کی دعوت دیتے ہوئے یہ نشاندہی کررہے تھے کہ وہ توحید کے بارے میں اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہوگئے ہیں۔ ان میں سے متعدد یہودیوں اور عیسائیوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
پیغمبر (ﷺ) کا عجمیوں سے قرآن مجید سیکھنا۔
تمام دستیاب تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہے کہ محمد (ﷺ) نے نبوت سے قبل مکہ سے باہر کے صرف تین سفر کیے:
1) 9 برس کی عمر میں آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ یثرب (مدینہ) تشریف لے گئے۔
2) 9 برس اور 12 برس کی عمر کے درمیان آپ اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی سفر پر شام گئے۔
3) 25 برس کی عمر میں آپ حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کا تجارتی قافلہ لے کر شام تشریف لے گئے۔
یہ فرض کرلینا کہ مذکورہ تین سفروں کے دوران میں عیسائیوں اور یہودیوں سے عمومی گفتگوؤں اور ملاقاتوں کے نتیجے میں قرآن وجود میں آگیا، ایک بے بنیاد اور خیالی بات ہے۔

ماخذِ قرآن :
نبئ مکرم (ﷺ) نے قرآن کریم کو یہودیوں اور عیسائیوں سے ہرگز نہیں سیکھا، نبئ کریم (ﷺ) کی روز مرہ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک وحی کے ذریعے سے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نبی (ﷺ) کو اپنے گھر میں علیحدگی ( پرائیویسی ) کا موقع دیں۔ ارشادباری تعالٰی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْقِلُونَ (٤)وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥)
" بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں اور اگر بے شک وہ صبر کرتے حتی کہ آپ خود ہی ان کی طرف نکلتے تو ان کے لیئے بہتر ہتوا، اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
( سورۃ الحجرات 49 آیات 4 تا 5 )
اگر نبئ کریم (ﷺ) ایسے لوگوں سے مل رہے ہوتے جو کفار کے دعوے کے مطابق انہیں وہ کلمات بتاتے تھے جنہیں وحی کے طور پر پیش کیا گیا تو یہ بات زیادہ دیر تک چھپی نہ رہتی۔
قریش کے انتہائی ممتاز سردار جنہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کی پیروی کی اور اسلام قبول کیا، اتنے ذہین اور دانشمند تھے کہ جس ذریعے سے پیغمبر ان کے پاس وحی لے کر آتے تھے اس کے متعلق اگر وہ کوئی بات مشکوک پاتے تو بآسانی بھانپ سکتے تھے، پھر یہ کوئی مختصر وقت کی بات نہیں تھی، نبی (ﷺ) کی دعوت اور تحریک 23 برس تک جاری رہی ، اس دوران میں کبھی کسی کو اس طرح کا شک نہ گذرا۔
رسول کریم (ﷺ) کے دشمن اپنا یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لیے مسلسل ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ کہ نبئ کریم ﷺ (نعوذ باللہ ) جھوٹے ہیں لیکن وہ اس بات کے حق میں ایک بھی مثال پیش نہ کرسکے کہ کبھی آپ نے مخصوص یہودیوں اور عیسائیوں سے کوئی خفیہ ملاقات کی ہو۔
یہ بات بھی ناقابل تصور ہے کہ کوئی شخس ایسی صورت حال قبول کرسکتا ہے کہ وہ قرآن وضع کرے لیکن اس کا کوئی کریڈٹ بھی نہ لے، لہذا تاریخی اور منطقی طور پر یہ دعوٰئ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کا کوئی انسانی ماخذ تھا۔
( حاشیہ: سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے قرآن سیکھا تھا تو پھر انہیں قبول قرآن میں تامل نہیں کرنا چاہیئے تھا جبکہ تایخ شاہد ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ہی آپ کی مخالفت کی جو آج تک جاری ہے۔

محمد (ﷺ) پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے :
یہ دعوٰی کہ محمد (ﷺ) نے خود قران تصنیف کیا یا اسے دوسرے ذرائع سے نقل کیا، محض اس ایک تاریخی حقیقت سے غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ (ﷺ) پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالی خود قرآن میں اس بات کی تصدیق فرماتا ہے۔ سورۃ عنکبوت میں ارشاد ہوا:
وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (٤٨)
" اور ( اے نبی!) آپ اس (قرآن ) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، ( اگر ایسا ہوتا ) تو باطل پرست یقیناً شک کرسکتے تھے۔۔
( سورۃ العنکبوت 29 آیت 48)
اللہ تعالی کو یہ علم تھا کہ بہت سے لوگ قرآن کے مستند ہونے پر شک کریں گے اور اسے محمد (ﷺ) کی ذات سے منسوب کریں گے۔ لہذا اللہ عالی نے اپنی ابدی حکمت سے ایک "اُمی " کو اپنا آخری نبی بنا کر بھیجا تاکہ باط پرستوں کے پاس نبی (ﷺ) پر شک کرنے کا کوئی معمولی سا جواز بھی باقی نہ رہنے دیا جائے۔ آپ () کے دشمنوں کا یہ الزام کہ آپ نے دوسرے ذرائع سے قرآن اخذ کیا اور پھر اسے خوبصورت عربی زبان میں ڈھال لیا ، شاید کسی وزن کا حامل ہوسکتا تھا لیکن اس کمزور عذر کو بھی کافروں اور شک کرنے والوں پر الٹ دیا گیا۔ اللہ تعالی نے سورۃ الاعراف میں اس کی دوبارہ توثیق کرتے ہوئے فرماتا ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ (١٥٧)
" ( متقی اور مومن ) وہ لوگ ہیں جو اس رسول امی نبی ( محمد (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا پاتے ہیں۔ "
( سورۃ الاعراف 7 آیت 157 )

اُمی نبی (ﷺ) کی آمد کی پیش گوئی بائبل میں :
اُمی نبی (ﷺ) کی آمد کی پیش گوئی بائبل کی کتاب یسعیاہ باب :29 فقرہ 12 میں بھی موجود ہے:
" پھر وہ کتاب اسے دین جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا اور کہیں، اسے پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ ( کتاب مقدس ، یسعیاۃ: 29/12)
قرآن کریم کم از کم چار مقامات پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نبئ کریم (ﷺ) لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اس امر کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت: 158 اور سورۃ جمعہ کی آیت:2 میں بھی کیا گیا ہے۔

بائبل کا عربی مسودہ :
نبئ کریم (ﷺ) کے دور مبارک میں بائبل کا عربی زبان میں کوئی مسودہ موجود نہیں تھا۔ عہد نامہ عتیق (Old Testament) کا سب سے پہلا عربی نسخہ وہ ہے جو پادری سعاد یاس گین (R. Saadias Gaon) نے 900 عیسوی میں تیار کیا، یعنی ہمارے پیارے نبی (ﷺ) کی رحلت کے تقریباً 250 برس بعد۔ عہد نامہ جدید (New Testament) کا سب سے قدیم عربی نسخہ ارپینئس (Erpenius) نے ہمارے نبی (ﷺ) کی وفات کے تقریباً ایک ہزار سال بعد 1616 عیسوی میں شائع کیا۔
قرآن اور بائبل کی یکسانیت :
قرآن اور بائبل میں پائی جانے والی یکساں باتوں سے لازمی طور پر یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اول الذکر مؤخر الذکر سے نقل کیا گیا ہے۔ فی الحقیقت یہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ دونوں کسی تیسرے مشترک ذریعے پر مبنی ہیں۔ تمام صحائف ربانی کا منبع ایک ہی ذات ، یعنی رب کائنات ہے، یہود و نصارٰی کی کتب اور ان سے بھی قدیم آسمانی صحیفوں میں انسانی ہاتھوں سے کی جانے والی تحریفات کے باوجود، ان کے بعض حصے تحریف سے محفوظ رہے ہیں اور اسی لیے کہ وہ کئی مذاہب میں مشترک ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن اور بائبل میں بعض یکساں چیزیں موجود ہیں لیکن اس کی بنا پر محمد (ﷺ) پر یہ الزام لگانے کا کوئی جواز نہیں کہ انہوں نے بائبل سے کوئی چیز نقل کی یا اس سے اخذ کرکے قران مرتب کیا۔ اگر یہ منطق درست ہےتو یہ مسیحیت اور یہودیت پر بھی لاگو ہوگی اور غلط طور پر یہ دعوٰی بھی کیا جاسکے گا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام ) نعوذ باللہ ) سچے نبی نہیں تھے اور انہوں نے محض عہد نامہ عتیق کی نقل کرنے پر اکتفا کیا۔
قرآن اور بائبل کے درمیان یکساں باتیں در حقیقت اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کا منبع مشترک، یعنی ذات حق تعالٰی ہے۔ یہ توحید کے بنیادی پیغام کا تسلسل ہے اور یہ مفروضہ غلط ہے کہ بعد میں آنے والے انبیاء نے گزشتہ انبیاء کی باتیں ان سے مستعار لے لی ہیں۔
اگر کوئی امتحان میں نقل کررہا ہوں تو وہ یقیناً اپنے پرچے میں یہ نہیں لکھے گا کہ میں نے انے پاس بیٹھے طالب علم زید بن بکر سے نقل کی ہے۔ جبکہ محمد رسول اللہ (ﷺ) گزشتہ انبیائے کرام کا احترام کرتے اور ان کی عظمت بیان کرتے اور قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مختلف انبیاء و رسل پر اللہ قادر مطلق کی طرف سے صحیفے نازل کئے گئے تھے۔
تمام آسمانی کتابوں پر ایمان :
اللہ تعالی کی چار کتابوں کا قرآن میں نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ اور مسلمان ان سب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ہیں: تورات، زبور، انجیل اور قرآن
٭ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام (Moses) پر بصورت الواح ( تختیاں ) نازل کی گئی۔
٭ زبور حضرت داؤد علیہ السلام (David) پر اتری
٭ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام (Jesus) پر نازل ہوئی۔
٭ قرآن مجید وہ آخری کتاب ہے جس کا نزول اللہ کے آخری نبی اور خاتم النیین حضرت محمد (ﷺ) پر ہوا۔
تمام نبیوں اور تمام الہامی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، تاہم موجودہ بائبل کے عہد نامہ عتیق کی پہلی پانچ کتابیں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہیں، اور مزامیر (Psalms) حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب کیئے جاتے ہیں، مزید برآں عہد نامہ عتیق کی یہ کتابیں اور عہد نامہ جدید یا اس کی چار انجیلیں وہ تورات، زبور یا انجیل نہیں ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ موجودہ بائبل میں جزوی طور پر کلامِ خداوندی موجود ہوسکتا ہے لیکن یہ کتابیں یقیناً اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔ نہ وہ پوری طرح صحیح ہیں اور نہ ان میں پیغمبروں پر نازل شدہ مکمل کلامِ وحی موجود ہے۔ ( حاشیہ : چار انجیلوں (Gospels) یعنی انجیل متی، انجیل لوقا، انجیل یوحنا، انجیل مرقس کی موجودگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کی تصنیف کی ہوئی ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل کا اب اپنی اصل صورت میں کوئی وجود نہیں۔ یاد رہے متی (St. Mathew)، لوقا (St. Luke) یوحنا (St. John) اور مرقس (St. Mark) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے۔ ( محسن فارانی ))
قرآن مجید تمام انبیاء ورُسل کو ایک ہی سلسلے سے متعلق قرار دیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ان س کی نبوت کا یک ہی نسب العین تھا اور ان کا بنیادی پیغام بھی ایک ہی تھا۔ اسی بنا پر قرآن کریم وضاحت کرتا ہے کہ بڑے برے مذاہب کی بنیادی تعلیمات باہم متضاد نہیں ہوسکتیں، باوجود اس کے کہ مختلف نبوتوں کے مابین قابل ذکر بُعدِ زمانی موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب نبوتوں کا منبع صرف ایک تھا، یعنی اللہ جو قادر مطلق ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ مختلف ادیان کے درمیان جو اختلاف پائے جاتے ہیں ان کی ذمہ داری انبیاء پر نہیں بلکہ ان کے پیروکاروں پر عائد ہوتی ہے۔ جو سکھائے ہوئے علم کا ایک حصہ بھول گئے، مزید برآں انہوں نے الہامی کتابوں کی غلط تعبیر کی اور ان میں تحریف بھی کر ڈالی، لہذا قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب تصور نہیں کیا جاسکتا، جو موسیٰ ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء کی تعلیمات کے مقابلے میں اتاری گئی ہے۔ اس کے برعکس یہ کتاب گزشتہ انبیاء کی طرف سے ان کی امتوں کی طرف لائے گئے پیغامات کی توثیق و تصدیق اور ان کی تکمیل کرتی اور انہیں نقطہء کام تک پہنچاتی ہے۔
قرآن کا ایک نام فرقان بھی ہے ہے جس کا مطلب حق و باطل میں امتیاز کرنے کی کسوٹی یا معیات ہے اور قرآن ہی کی بنیاد پر ہم یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ سابقہ الہامی کتابوں کے کون سے حسے کو کلامِ الہی تصور کیا جاسکتا ہے۔

قرآن اور بائبل کے درمیان سائنسی بنیاد پر تقابل :
قرآن مجید اور بائبل کے سرسری مطالعے میں آپ کو متعدد ایسے نکات نظر آئیں گے جو دنوں میں قطعی یکساں معلوم ہوتے ہیں لیکن جب آپ بغور ان کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سراسر اختلاف پایا جاتا ہے۔ صرف تاریخی تفصیلات کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کے لے جو مسیحیت یا اسلام میں سے اکیس کی تعلیمات پر عبور نہ رکھتا ہوں، یپہ فیصلہ کرنا سخت مشکل ہوگا کہ دونوں الہامی کتب میں سے صحیح کون سی ہے؟ تاہم اگر آپ دونوں کتابوں کے متعلقہ اقتباسات کو سائنسی علوم کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ سچ کیا ہے۔ ذیل میں دی گئی چند مثالوں سے آپ حقیقت حال سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔
٭ بائبل اور کائنات کیی تخلیق: بائبل کی پہلی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب اول میں لکھا ہے کہ کائنات چھ دنوں میں پیدا کی گئی اور ہر دن سے مراد 24 گھنٹے کا دورانیہ ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں بھی یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ کائنات چھ "ایام" میں پیدا کی گئی لیکن قرآن کے مطابق یہ " ایام " سالہا سال طویل ہیں۔ اس لفظ " یوم " کے دو معنی ہیں ، اول یہ کہ دن سے مراد معمول کے 24 گھنٹے کا دن ہے اور دوم اس سے مراد ایک مرحلہ، یا ایک دور یا ایک ایسا عہد جو بہت طویل زمانے پر مشتمل ہو۔
جب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ کائنات چھ دنوں میں پیدا کی گئی تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ طویل ادوار یا زمانوں میں پیدا کیا گیا۔ سائنسدانوں کو اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں، کائنات کی تخلیق میں اربوں سال صرف ہوئے اور یہ بات بائبل کے اس تصور کے منافی ہے جس میں کہا گیا ہے کائنات صرف چھ دنوں میں پیدا کی گئی جبکہ ہر دن چوبیس گھنٹے کا تھا۔

بائبل اور سورج کی تخلیق:
بائبل کی کتاب " پیدائش" میں کہا گیا ہے کہ روشنی ، دن اور رات کو اللہ نے کائنات کی تخلیق کے پہلے روز پیدا کیا، چنانچہ اس میں لکھا ہے:
" اللہ نے ابتداء میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا، اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی ہوجا اور روشنی ہوگئی۔ اور خدا نے دکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔ اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات، اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، سو پہلا دن ہوا۔"
(کتاب مقدس، پیدائش: 1 /3-5
جدید سائنس کے مطابق کائنات میں گردش کرتی ہوئی روشنہ درحقیقت ستاروں میں ایک پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہے جبکہ بائبل کے مطابق سورج، چاند اور ستارے چوتھے روز پیدا کیے گئے، کتاب " پیدائش " میں لکھا ہے:
" سو اللہ نے دو بڑے نیر بنائے، ایک نیرا اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اس نے ستاروں کو بھی بنایا۔ اور کدا نے ان کو فلک پر رکھا کہ زمین پر روشنی ڈالیں، دن اور رات پر حکم کریں اور اجالے کو اندھیرے سے جدا کریں، اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے، اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، سوچو تھا دن ہوا۔ " 
(کتاب مقدس، پیدائش: 1/16-19)
یہ بات خلاف منطق ہے کہ روشنی کا منبع نیرا اکبر ( سورج ) تو تین دن بعد پیدا کیا گیا لیکن سلسلہء روز و شب جو سورج کی روشنی کا نتیجہ ہے پہلے دن ہی پیدا کردیا گیا۔ مزید براں ایک دن کے عناصر، یعنی صبح و شام کے وجود کا ادراک تو سورج کے سامنے زمین کی گردش محوری کے بعد ہی ہوسکتا ہے مگر بائبل کے مطابق صبح اور شام کی تخلیق سورج کی تخلیق سے تین دن پہلے ہی عمل میں آگئی۔
اس کے برعکس قرآن مجید میں اس موضوع پر تخلیق کائنات کی کوئی غیر سائنسی ترتیب زمانی نہیں دی گئی، لہذا یہ کہنا سراسر غلط اور مضحکہ خیز ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) نے تخلیق کائنات کے موضوع پر بائبل کے اقتباسات تو نقل کرلیئے مگر بائبل کے خلاف منطق اور عجیب و غیرب باتیں چھوڑ دیں۔

سورج روشنی خارج کرتا ہے چاند نہیں:
بائبل کے مطابق سورج اور چاند دونوں روشنی خارج کرتے ہیں۔ جیسا کہ کتاب پیدائش میں انہیں بالترتیب " نیرا اکبر" اور نیرا اصغر " قرار دیا گیا ہے لیکن جدید سائنس کے مطابق چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں اور وہ محض شمسی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ اس سے قرآن مجید کے اس نطریئے کی تائید ہوتی ہے کہ چاند " منیر " یعنی روشنی کو منعکس کرنے والا ہے اور اس سے آنے والی روشنی منعکس شدہ ہے، اب یہ سوچنا دُور ازکار بات ہے کہ نبی (ﷺ) نے بائبل کی ان سائنسی غلطیوں کی اصلاح کی اور پھر ایسی اصلاح شدہ عبارات قرآن میں شامل کرلیں۔

تخلیق نباتات اور سورج:
بائبل کی کتاب " پیدائش " باب اول، فقرہ: 11 تا 13 کے مطابق نباتات ، گھاس، بیج دار پودوں اور پھل دار درختوں کو تیسرے روز پیدا کیا گیا جبکہ اسی باب کے فقرہ: 14 تا 19 کے مطابق سورج کی تخلیق چوتھے روز عمل میں آئی، سائنسی اعتبار سے یہ کیسے ممکن ہے کہ نباتات سورج کی حرارت کے بغیر ہی وجود میں آجائیں؟ جیسا کہ بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔
اگر غیر مسلم معترضین کے بقول نبی کریم (ﷺ) نعوذ باللہ )) فی الواقع قرآن کے مصنف تھے اور انہوں نے بائبل کے مواد سے کچھ نقل کیا تو آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ انہوں نے بائبل میں شامل وہ بیانات چھوڑ دیئے جو سائنسی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے اور قرآن میں ایسا کوئی بیان نہیں ملتا جو سائنسی حقائق کے خلاف ہو؟

تخلیقِ آدم اور بائبل:
بائبل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) اور کرہ ارض پر پہلے انسان ، یعنی حضرت آدم ( علیہ السلام ) تک بیان کردہ سلسلہ نسب کے مطابق حضرت آدام ( علیہ السلام ) کے درمیان تقریباً 1948 برس کا بُعد ہے اور ابراہیم ( علیہ السلام ) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے درمیان تقریباً 1800 برس کا فاصلہ ہے جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) سے آج تک 2000 برس گزر چکے ہیں۔ رائج الوقت یہودی کیلنڈر بھی تقریباً 5800 سال پرانا ہے جو کہ تخلیق کائنات سے شروع ہوتا ہے۔
آثار قدیمہ اور بشریات () کے مآخذ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر قدم رکھنے والا پہلا انسان آج سے دسیوں ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ قرآن نے بھی آدم ( علیہ السلام ) کا ذکر زمین سے پہلے انسان کے طور پر کیا ہے لیکن بائبل کے برعکس اس نے نہ تو ان کی کوئی تاریخ بیان کی ہے اور نہ یہ بتایا کہ وہ زمین پر کتنا عرصہ رہے، ادھر بائبل نے اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ سائنسی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔

طوفانِ نوح اور بائبل:
بائبل کی کتاب پیدائش کے ابواب: 6،7 اور 8 سے ظاہر ہوتا ہے کہ طوفان نوح عالم گیر طوفان تھا جس نے روئے زمین پر ہر زندہ چیز کو تباہ کردیا سوائے ان کے جو نوح ( علیہ السلام ) کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے۔
"کیا انسان، کیا حیوان، کیا رینگنے والا جاندار، کیا ہوا کیا پرندہ یہ سب کے سب زمین پر مرمٹے، فقط ایک نوح باقی بچا یا وہ جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے۔ "
( کتاب پیدائش: 7/23
بائبل کے بیان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ واقعہ آدم ( علیہ السلام ) کی پیدائش کے 1656 سال بعد یا ابراہیم ( علیہ السلام ) کی پیدائش سے 292 برس قبل اس وقت پیش آیا جب نوح ( علیہ السلام ) کی عمر 600 برس ہوچکی تھی، گویا یہ طوفان 21 ویں یا 22 ویں صدی قبل مسیح میں آیا ہوگا۔
بائبل میں طوفان کی جو کہانی بیان کی گئی ہے۔ وہ آثار قدیمہ کے مآخذ سے ملنے والی سائنسی شہادتوں سے متضاد ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مذکورہ صدیوں میں مصر کے گیارھویں حکمران خاندان اور بابل کے تیسرے خانوادے کی سلطنتیں کسی تہذیبی بحران کے بگیر مسلسل قائم تھیں اور کسی بڑے طوفان سے متاءثر نہیں ہوئی تھیں جو اکیسویں بائیسویں صدی قبل مسیح میں آیا ہو۔ یہ بات بائبل کے اس قصے کی تردید کرتی ہے کہ طوفان کے پانیوں میں ساری دنیا ڈوب گئی تھی اس کے برعکس قرآن مجید میں نوح ( علیہ السلام ) کے بارے میں جو قصہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی سائنسی شہادت یا آثار قدیمہ کے کوائف سے متصادم نہیں۔ اول تو قرآن اس واقعے کی کسی متعین تاریخ یا سال کی نشاندہی ہی نہیں کرتا۔ دوم ، قرآن کے مطابق بظاہر یہ سیلاب ایک عالمگیر واقعہ نہیں تھا جس سے زمیں پر موجود زندگی کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہو۔
لہذا یہ فرض کرنا غیر منطقی بات ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے طوفان نوح کا قصہ بائبل سے مستعار لیا اور اس کا ذکر قرآن میں کرنے سے پہلے غلطیوں کی تصحیح کردی۔
موسی ( علیہ السلام ) اور فرعون:
قرآن کریم اوربائبل میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) اور فرعون ( جس کے دور میں یہود کا مصر سے خروج عمل میں آیا ) کے جو قصے بیان کیے گئے ہیں ، وہ ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ دونوں الہامی کتب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ فرعون نے جب موسیٰ ( علیہ السلام ) کا تعاقب کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کھاڑی کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈوب گیا جسے موسی ( علیہ السلام ) اسرائیلیوں کے ہمراہ پار کرگئے تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ یونس میں ایک مزید خبر دی گئی ہے:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (٩٢)
" آج ہم تیرا جسم بچا کر ( سمندر سے ) باہر نکال پھینکیں گے تاکہ وہ اپنے بعد والوں کے لیے نشان ( عبرت) ہو، اور بے شک بہت لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ "
( سورۃ یونس 10 آیت 92)
ڈاکٹر موریس بکائے نے مکمل تحقیقات کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ فرعون رعمسیس ثانی اس بات کے لیئے معروف ہے کہ اس نے بائبل کے بیان کے مطابق اسرائیلیوں پر ظلم ڈھائے لیکن فی الحقیقت وہ اس وقت ہلاک ہوگیا تھا جب موسیٰ ( علیہ السلام ) مدین میں پناہ لیئے ہوئے تھے۔ رعمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح اس کا جانشین ہوا اور وہی یہود کے مصر سے خروج کے دوران میں بحیرہ قلزم کی کھاڑی میں ڈوب کر مرگیا۔ 1898ء میں مصر کی وادئ ملوک میں منفتاح کی مومیائی ہوئی لاشیں پائی گئی۔ 1975ء میں ڈاکٹر موریس بکائے نے دوسرے فضلاء کے ساتھ مل کر منفتاح کی مومیا کا معاینہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اس کے معاینے سے انہوں نے جو نتائج اخذ کیے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ منفتاح غالباً ڈوبنے سے یا اس شدید صدمے کی وجہ جو ڈوبنے سے عین پہلے اسے پیش آیا، ہلاک ہوا، لہذا قرآنی آیت کی صداقت کہ " ہم اس کی لاش کو عبرت کے طور پر محفوظ رکھیں گے۔ " فرعون کی لاش ملنے سے ظاہر ہوگئی جو اب مصری عجائب گھر ( متحف مصری ) واقع قاہرہ میں پڑی ہے۔
اس آیت قرآنی نے ڈاکٹر موریس بکائے کو، جو اس وقت تک عیسائی تھا، مطالعہ قرآن پر مجبور کردیا۔ بعد میں اس نے " بائبل، قرآن اور سائنس " کے عنوان سے کتاب لکھی اور اس بات کا اعتراض کیا کہ قرآن کا مصنف اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا، ڈاکٹر بکائے نے آخر کار اسلام قبول کرلیا۔
قرآن اللہ کی کتاب ہے :
یہ شواہد اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ قرآن مجید، بائبل سے نقل نہیں کیا گیا بلکہ قرآن تو فرقان ہے، یعنی وہ کسوٹی جس کے ذریعے سے حق اور باطل میں امتیاز کیا جاسکتا ہے اور اس سے استفادہ کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بائبل کا کون سا حصہ کلامِ الہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید خود اس کی شہادت دیتا ہے۔ سورۃ السجدہ میں ارشاد باری تعالی ہے:
الم (١)تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (٢)أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (٣)
"الم ۔ بے شک اس کتاب کا نزول رب العالمین کی طرف سے ہے۔ کیا وہ کہتے ہیں کہ نبی نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ ( نہیں !) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پائیں۔
(سورۃ السجدہ 32 آیات 1 تا 3 )

Tuesday, August 30, 2016

kya yahudi uzair a.s ko allah ka beta mante hai ?

اعتراض :
قرآن کے مطابق یہودی کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔
وَ قَالَتِ ال
ۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ .. ﴿سورۃ التوبہ، آیت 30 ﴾
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے .
اب عیسائیوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہودیوں کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے ، اور نہ ہی یہودیوں کی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے تھے۔ نہ ہی آج کل کے یہودی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہودیوں کا کبھی یہ عقیدہ رہا ہو۔
تبصرہ:
اس اشکال کے جواب میں چند نکات پیش ہیں۔
1۔بعض ملحدین نے اس آیت پر یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ قرآن مجید کے اس دعوٰی یہودی عزیرعلیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے ' کی تصدیق بائبل نہیں کرتی۔ یہ اعتراض حقیقت میں قرآن پر بنتا نہیں بلکہ بائبل پر بنتا ہے کہ اُس نے ہر ہر واقعہ کے متعلق معلومات فراہم نہیں کی یا پھر اس عقیدے کو قصداً تحریف کی بھینٹ چڑھا دیا گیا یا پھر بغض اسلام میں یہودیوں نے تاریخ پر خط نسخ پھیر دیا ۔ اگر یہودیوں میں ایسا کوئی فرقہ موجود نہ رہا ہوتا تو یثرب اور خیبر وغیرہ کے یہودی ضرور اس آیت پر اعتراض کرتے اور لازما کہتے کہ یہ بات ان سے غلط طور پر منسوب کی جا رہی ہے۔ ان کا اعتراض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں ایسا فرقہ موجود تھا۔ جو دن رات اسی ٹو میں رہتے تھے کہ ہمیں اعتراض کی کوئی بات ملے، حضور اور صحابہ کا مذاق اڑانا، مناظرے اور کئی جگہ سوالات تک قرآن نے ذکر کیے ہیں یہ ممکن نہیں کہ قرآن پر اعتراض کا اتنا اہم پوائنٹ وہ مس کرجاتے جسے آج کے متعصبین لے کے بیٹھے ہوئے ہیں ، نبی کریم ﷺ کے معاصرین یہود یوں کا اس پر سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل مبین ہے کہ ابتدائے اسلام میں یہودیوں میں نہ صرف ایسے لوگ موجود تھے بلکہ اہل مدینہ ان لوگوں سے واقفیت بھی رکھتے تھے۔
2۔یہ بات قانون فطرت ہے کہ کسی بھی قوم یا جماعت میں فرقے عدم سے وجود میں آتے ہیں اور پھر دوبارہ معدوم ہوجاتے ہیں لہذا کسی فرقے کے وجود کا زمانہ حال میں موجود نہ ہونا اُس کے لائمی عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔یہودیوں میں ایک غاریہ فرقہ ہوا کرتا تھا جوکہ غاروں میں سکونت پذیر رہتے تھے مگر آج یہ موجو د نہیں۔اِسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک فرقہ اسینی کے نام سے موجود تھا لیکن انجیل میں کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں اور 1947 میں اس فرقہ کی عظیم باقیات یروشلم کے قریب قمران نامی علاقے سے ملی ہیں۔اناجیل میں موجودیہودی فرقے صدوقی،فریسی وغیرہ کوئی بھی آج موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ کہاں سے برآمد ہوگیا کہ یہ فرقے موجود ہی نہیں تھے۔ اگر قرآن مجید کے دعویٰ کے مطابق عزیز علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننے والا یہودی فرقہ موجود نہیں تویہ قرآن مجید کی عدم صداقت کی دلیل ہے تو پھر یہ اعتراض بدرجہ اولیٰ بائبل پر وارد ہوجاتا ہے جو سودمی،ادومی،صدوقی وفریسی نامی فرقوں کے وجود کی خبر دیتی ہیں مگر آج ان فرقوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ حقیقت میں یہ اعتراض کسی پر بھی نہیں بنتا بلکہ تذکرہ کرنے والے کی حقانیت کی دلیل ہے کہ وہ ایسی باتیں بھی بتا رہا ہے جو صدیوں پرانی ہیں اور اسکے گواہ اسکے اپنے نہیں غیر مذہب کے لوگ ہیں ۔۔۔!!!
3۔ یہود میں یہ عقیدہ کیسے اور کب وجود میں آیا ؟ ؟ یہودی قوم اپنی شرارت کی وجہ سے ہمیشہ ذلت اور پریشانیوں کا شکار رہی. ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس دور میں تورات کو بھی جلا دیا گیا تھا تب حضرت عزیر نے اللہ کے حکم سے دوبارہ تورات لکھی جب یہ لوگ جنگ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنے چھپائے ہوئے نسخوں سے اس کو ملایا جو حضرت عزیر نے لکھا تھاتب اس کو ہو بہو پا کر ان کی عزت کرنے لگئ اور ان کو شریعت موسوی کا نائب اور ایک بہت بڑے عالم کا درجہ دنے لگے اور بعض نے ان کو خدا کا بیٹا تک بنا ڈالا ۔بعد میں یہ شرک ان میں پھیلتا گیا ، یہاں تک کہ بعد کے نبیوں نے آکر اصلاح کی اور یہ لوگ محدود ہوتے گئے۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک جگہ پڑھا تھا حضرت عباسؓ غالباََ فرماتے ہیں کہ ایک دن یہود کے کچھ سردار اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لاہیں جب کہ آپ عزیر کو اللہ کا بیٹا بھی نہیں مانتے تب یہ آیات نازل ہوہیں.۔۔۔ جس طرح عیسائیت میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کی تقسیم ہوئی، کیتھولک اکثریت میں رہے، اس طرح یہود میں ایک زمانہ ایسے یہود کی اکثریت کا بھی رہا ہے، قرآن نے اسی اکثریت کے عقیدے کی خبر تھی جو عیسائیوں میں کیتھولک کو بھی حاصل تھی۔
-4 ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں "آج سے 54 سال قبل اردن کے علاقے میں بڑا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ Dead Sea جس کو بحر میت (یا بحر مردار) بھی کہتے ہیں۔ اس کے ایک طرف پہاڑ ہے اور پہاڑ کے اختتام پر بحر میت شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے دوسرے کنارے پر اس علاقہ کی حدود شروع ہوتی ہیں جس کو مغربی کنارہ کہتے ہیں جس پر اب اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وہاں ایک چرواہا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ وہ روزانہ اس جگہ اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنی بکریاں چراتا چراتا پہاڑ کے اوپر چلا گیا اور شام تک وہاں بکریاں چراتا رہا۔ جب واپس جا رہا تھا تو ایک بکری گم ہو گئی۔ وہ اس بکری کی تلاش میں نکلا۔ چلتے چلتے اسے ایک غار دکھائی دیا۔ اس نے سوچا کہ شاید بکری غار کے اندر چلی گئی ہے۔ بکری کو بلانے کے لئے اس نے آواز دی تو اندر سے بکری کی آواز آئی۔ وہ غار کے اندر داخل ہو گیا۔ وہ غار کے اندر چلتا گیا اور بکری بھی آگے آگے چلتی گئی۔ جب خاصا اندر چلا گیا تو اسے کچھ اندھیرا سا محسوس ہوا۔ یہ اپنی بکری چھوڑ کر واپس آ گیا اور اگلے دن کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر گیا اور ساتھ ہی روشنی کا انتظام کرے کے لئے کوئی شمع یا لالٹین بھی ساتھ لیتا گیا۔ جب وہ اندر داخل ہوا اور بکری کو ساتھ لانے لگا تو اس نے دیکھا کہ غار کے اندر مٹی کے بہت سارے بڑے بڑے گھڑے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کو یہ خیال ہوا کہ شاید یہ کوئی پرانا خزانہ ہے جو یہاں چھپا ہوا ہے۔ اس نے ایک مٹکے میں ہاتھ ڈالا تو اس میں پرانے کاغذ اس طرح لپٹے ہوئے رکھے تھے جیسے طومار لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک کو چھیڑا، وہ پھٹ گیا۔ دوسرے کو چھیڑا وہ بھی پھٹ گیا۔ ہر مٹکے میں ایسے ہی طومار بھرے ہوئے تھے۔ وہ واپس آ گیا اور اس نے آ کر گاؤں والوں کو بتایا کہ شاید وہاں کوئی خزانہ دفن ہے۔ بہت سے گاؤں والے وہاں پہنچے اور انہوں نے ان مٹکوں میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت سے کاغذ پھٹ گئے۔ اتفاق سے وہاں ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم آئی ہوئی تھی جو چند مغربی ماہرین پر مشتمل تھی۔ جب انہیں یہ قصہ معلوم ہوا تو وہ بھی وہاں پہنچے اوران میں سے بہت سے کاغذات اورکتابیں چرا کر لے گئے۔ مقامی حکومت کو جب ان کی اس حرکت کا پتہ چلا تو انہوں نے انہیں روکا اور یہ تمام کاغذات اور کتابیں سرکاری قبضہ میں لے کر ایک مرکز میں رکھ دیں اور ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی کہ وہ کاغذوں اور طوماروں کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ یہ کیا کتابیں ہیں۔ کہاں سے آئی ہیں اور کس نے لکھی ہیں اور ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ ان آثار و دستاویزات کا جو حصہ مغربی ماہرین لے گئے تھے، انہوں نے بھی ان کاغذات کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ قدیم خطوط اور مذاہب کے ماہرین کو بلوایا گیا۔ انہوں نے بھی ان کتابوں کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جو کسی بڑے عیسائی عالم کی ملکیت تھا۔ وہ عیسائی عالم اس زمانہ میں تھا جب عیسائیوں پر مظالم ہو رہے تھے اور یہودیوں کی حکومت تھی۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے 150،100 سال بعد کا واقعہ ہے۔ یہ لوگ اہل ایمان اور صاحب توحید تھے۔ جب ان پر مظالم ہوئے تو یہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس کتب خانہ کے مالک عالم کو خیال ہوا کہ کتابوں کا یہ قیمتی ذخیرہ لوگ ضائع کر دیں گے۔ اس لئے وہ اس ذخیرہ کو غار میں چھپا کر چلا گیا کہ اگر زندگی بچی تو واپس آ کر لے لوں گا۔ اس کے بعد اس کو واپس آنے اور اپنے کتب خانے کو واپس حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یوں یہ کتب خانہ کم و بیش اٹھارہ سو سال وہاں غاروں میں محفوظ رہا۔ گویا سن 100 یا 150 عیسوی سے یہ کتابیں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔
کوئی پونے دو ہزار سال پہلے کے لکھے ہوئے یہ ذخائر قدیم عبرانی اور سریانی زبانوں میں تھے۔ ان میں سے ایک ایک کر کے چیزیں اب شائع ہو رہی ہیں۔ کچھ چیزیں اردن میں شائع ہوئی ہیں اور کچھ انگریزی زبان میں یورپ میں شائع ہو رہی ہیں۔ یونیسکو اس عظیم کام کے لئے پیسہ دے رہی ہے۔ ان میں سے کچھ حصے جو 1960 یا اس کے لگ بھگ شائع ہوئے تھے ان میں ایک پوری کتاب ہے جو غالبا کسی عیسائی عالم کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کا کچھ حصہ یہودیوں کی تردید میں ہے۔ خاص طور پر ان یہودیوں کی تردید میں جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں۔ کتاب میں اس عقیدے کی برائی بیان کی گئی ہے اور اس مشرکانہ عقیدہ پر ان یہودیوں کو شرم دلائی گئی ہے اور پھر یہ وضاحت بھی لکھی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ایک ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اور عزیر علیہ السلام تو اللہ کے نیک بندے اور انسان تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں؟گویا اسلام سے بہت پہلے کا یہودیوں کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا، عیسائیوں کا محفوظ کیا ہوا اور اہل مغرب کا چھاپا ہوا ایک مسودہ مل گیا کہ جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس زمانہ میں یہودیوں میں ایک فرقہ ایسا موجود تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتا تھا۔(محاضرات قرآنی، ڈاکٹر محمود احمد غازی)

debate : kya quran insani kalam hai ? (urdu post)

کچھ عرصہ قبل دیسی ملحدین کے علامہ جناب ایاز نظامی کی جانب سے بار بار یہ چیلنج دیا گیا کہ کسی درس نظامی کے فارغ کو لایا جائے اور ان سے دو دو ہاتھ کرائے جائیں۔ رد الحاد کے ہمارے مجاہدوں کی نظر انتخاب مجھ ناتواں پر پڑی۔ معذرت چاہی کہ محض مدرسے میں پڑھ لینے سے کوئی عالم نہیں ہوجاتا، میں کیا اور میرا مبلغ علم کیا! لوگوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، تمہیں کونسا طرم خان سے مقابلہ کرنا ہے، ایاز نظامی ہی تو ہیں، جنہیں ملحدین کے سماج میں قحط علم کے سبب علامہ کا منصب مفت نصیب ہوگیا ہے۔۔ دیکھ لینا پہلے ہی ہلے میں آنجناب کی علمیت اور درس نظامی کا سارا خمار اتر جائے گا۔
مجھے بھی ایاز نظامی صاحب کی علمیت کے بارے میں کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں تھی، اس لئے اپنی کم مائیگی کے باوجود بھی آخر کار میں نے حامی بھر ہی لی۔ بہر حال بگل بجایا گیا، اور آنجناب کو اپنے کرتب دکھانے کی کھلی دعوت دی گئی۔ بمشکل تمام جناب والا اپنے "عافیت کدے" سے برامد ہوئے، مجھ سے پرسنل پر شرائط اور موضوع وغیرہ سے متعلق گفتگو ہوئی۔ میں نے ملحدین کے دین "ہیومن رائٹس" پر بات کرنے کی تجویز رکھی اس دعوے کے ساتھ کہ یہ مبہم، غیر منطقی، خلاف حقیقت اور غیر عملی ہے۔ مگر اپنے دین پر بات کرنا ملحدین کو سخت ناپسند ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا دین بس دھونس دھڑلے سے مان لیا جائے۔ آنجناب بھی تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنا دعوی پیش کیا کہ "کامن سینس کی روشنی میں قرآن انسانی کلام ہے" پس یہی موضوع مناظرہ ٹھہرا کہ "کیا قرآن انسانی کلام ہے؟"
اس موضوع پر جو مناظرہ ہوا اسکا خلاصہ پیش ہے۔
2 نومبر 2015 کو آنجناب پبلک میں اپنے مقدمے کے ساتھ نمودار ہوئے کہ میرا موقف ہے کہ قرآن انسانی کلام ہے، یہ کلام الٰہی نہیں ہے، خود قرآن نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 82 میں کہا ہے کہ:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ
ۚ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا کَثِيرًا ﴿٨٢﴾ترجمہ : کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
اس کے بعد ایاز نظامی صاحب نے اپنا اصل دعوی بایں الفاظ پیش کیا: 
میرے نزدیک قرآن کا سب سے بڑا داخلی تضاد سورۃ فصلت کی آیات 9 تا 12 اور سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 کے مابین واقع ہے۔ یہاں ان آیات کو درج کرتا ہوں:
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا
ۚ ذَٰلِکَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَکَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ کَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِکَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
ترجمہ: کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھیراتے ہو وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے (9) اور اس نے زمین میں اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت دی اور چار دن میں اس کی غذاؤں کا اندازہ کیا (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے (10) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھؤاں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں (11) پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور حفاظت کے لیے بھی یہ زبردست ہر چیز کے جاننے والے کا اندازہ ہے (12)
اور ان آیات کا سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 سے موازنہ دیکھئے :
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ
ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْکَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِکَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے (27) ا سکی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا (28) اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا (29) اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا (30)
یہ ایک واضح تضاد ہے کہ سورۃ فصلت کی آیات میں پہلے زمین کی تخلیق کا ذکر ہے، اور بعد میں آسمان کی تخلیق کا ذکر، جبکہ سورۃ لنازعات کی آیات میں پہلے آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کے بعد زمین کی تخلیق کا ذکر ہے۔
ہم نے یہاں قرآن کریم سے استفادے کے صحیح طریقے پر مختصر کلام کرتے ہوئے عرض کیا قرآن دراصل تخلیق کے تین مراحل بیان کرتا ہے:
1- رتق وفتق، کہ جس کا ذکر سورہ انبیاء کے اندر ہے۔ آسمان صورت دخان (دھواں)تو اسی مرحلے میں وجود پا گیا تھا... 
2- تخلیق أرض من حیث الأصل 
3- تسویہ سماء (آسمان کو برابر کرنا، اس کے طبق بنانا، سیاروں اور ستاروں سے سجانا وغیرہ) اور دحو أرض (زمین کو پھیلانا، بچھانا، رہائش کے لئے تیار کرنا وغیرہ)۔۔۔
تو جن چیزوں میں آپ کو خلط ہوا، وہ یہی آخری دو مرحلے ہیں(یعنی زمین کی تخلیق اور زمین کا دحو)
پس جن آیات کو آپ آپس میں ٹکرانے کی سعی فرما رہے ہیں ذرا ان کو ایک بار غور سے پڑھ لیں کہ کیا دونوں جگہ تخلیق ہی کا لفظ ہے؟ یا کہیں دحو اور تسویہ بھی ہے؟ !!!
تو جناب من! خلق اور چیز ہے اور دحو اور۔. زمین کی تخلیق آسمان کےتسویہ ( برابر کرنے) سے پہلے ہوئی ہے، جب کہ زمین کا دحو (یعنی بچھانا) یہ آسمان کے تسویہ کے بعد۔۔ آخر اس میں تعارض کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں ہی الگ الگ ہیں، تو ان کا وقت الگ الگ ہونا آپس میں کیسے متعارض ہوا؟
سو آیات کی روشنی میں ترتیب یوں ہوئی.. (رتق اور فتق کے بعد) خلق أرض< تسویہ سماء (جبکہ وہ پیش کردہ آیات کی روشنی میں دھویں کی شکل میں پہلے سے تھا) < دحو ارض وإخراج ماء ومرعی...
پس دو دن زمین کے بننے میں، پھر دو دن تسویہ سماء کے - پھر دو دن دحو ارض کے.. اس طرح زمین پر جو کل کام ہوا' خلق 'اور 'دحو' کا اسے سورہ حم سجدہ میں واؤ کے ذریعے یکجا کیا گیا، جو مطلق جمع کے لیے ہوتا ہے، ترتیب کا فائدہ نہیں دیتا.. کیونکہ سیاقِ امتنان میں ترتیبِ وقوع کی اہمیت نہیں، بلکہ سیاق سے انسب یہی ہے کہ زمین جو انسان کے لئے اصل کارزار حیات ہے، اس سے متعلق نعمتوں کو یکجا کرکے بیان کیا جائے، سو زمین پر ہونے والے اس سارے کام کی کل مدت ہوئی چار دن، جیسا کہ مذکورہ آیت میں بیان ہوا... (جس کو آپ نے غلط طور پر صرف 'قدر فیھا' سے جوڑ دیا ہے) اور اگلی آیت میں ثم کا عطف براہ راست خلق الارض پر ہے (یہ اس صورت میں کہ کوئی ثم سے مزید برآں مراد لینے پر آمادہ نہ ہو، حالانکہ ہم نے آگے بحث میں ثابت کیا کہ ثم جملوں میں تو ترتیب کے لئے آتا ہی نہیں)!
رہا نازعات میں مذکور دحوِ ارض تو اس کی تشریح خود اگلی آیت میں ہے کہ اخرج منھا ماءھا ومرعاھا... (اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا)
(اس کے بعد ہم نے محض یہ واضح کرنے کے لئے کہ ہماری بیان کردہ ترتیب ہماری خانہ ساز نہیں، بخاری کتاب التفسیر کے حوالے سے حضرت ابن عباس کا قول اپنی تائید میں پیش کیا۔ یہ دراصل صرف یہ بتانے کے لئے تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ آنجناب نے اعتراض پیش کردیا تو ہم نے جواب دینے کے لئے کوئی تاویل گھڑ لی ہے، بلکہ یہی ان آیات کی تفسیر چلی آرہی ہے۔مگر موصوف نے ہمارے اس حوالے میں پیش کی گئی ضعیف روایات کو اپنے حق میں لانے کے لئے بطور بہانہ استعمال کیا ، حالانکہ ان کا دعوی اور بحث کا موضوع خود قرآن میں تضاد دکھانا تھا نہ کہ قرآن اور روایات میں۔)
الغرض قرآن کریم میں تضاد کے اس دعوے کا خلاصہ یہ نکلا کہ ملحد قرآن کریم کی آیات کی جو من مانی تشریح کرے، پہلے اسے مان لو، خواہ چودہ صدیوں میں ان آیات کا یہ معنی کسی نے بھی نہ سمجھا ہو، پھر جب آپ ملحد کی اس تشریح کو مان لیں گے تو قرآن میں تضاد خود بخود ثابت ہوجائے گا۔ورنہ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ قرآن کریم کی ان آیات کاایسا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔
ہمارے پہلے جواب کے بعد جواب الجواب اور اس کے جواب کا جو سلسلہ چلااس میں آنجناب نے اپنے اسی دعوے کی ملحدانہ تکرار کی،اور مفروضات مبنی پر مفروضات اور فحش لغوی، نحوی ودیگر غلط بیانیوں کے ذریعے اپنے اس موہوم تضاد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جب ان کی غلطیوں پر ان کی گرفت کی جاتی، تو اس کا جواب دینے کے بجائے، آئیں بائیں شائیں کرتے، یا موضوع سے ہٹ کر کچھ نئے بلنڈرز لے آتے۔ بعد کی تکرار کے علاوہ اٹھائے گئے چند اہم پوائنٹس پر مکالمہ پیش ہے۔
ایاز نظامی صاحب نے لکھا اب سورۃ حم سجدہ کے مطابق ترتیب یوں ہوئی:
1- تخلیق ارض 2- متعلقات ارض ( جس میں دحو، ارساء، برکت اور تقدیر اقوات سب کو شامل کرلیجئے) 3- تسویہ سماء
اور سورۃ النازعات کے مطابق ترتیب یوں ہے:
1- تسویہ سماء (رفع سمکھا فسواھا) پھر اس کے بعد 2- تخلیق ارض (جسے قرآن نے دحو کہا ہے) اور پھر اس کے بعد 3- اخراج لماء من الارض اور ارساء الجبال
اور ان دونوں ترتیبوں میں فرق بالکل نمایاں ہے۔ اس لئے میرے نزدیک اپ کی اس قدر محنت کے باوجود تضاد جوں کا توں اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ جب واو ترتیب کے لئے نہیں آتا، تو تخلیق ارض کے بعد متعلقات ارض کس دلیل سے درج کیے گئے؟؟
دوسری زبردستی آپ نے نازعات میں تخلیق ارض کے لفظ زبردستی شامل کرکے، اوپر سے ایک اور زبردستی کی کہ تخلیق کو قران نے دحو کہا ہے!! ہرگز نہیں کہا!! آپ ایک بھی شاہد نہیں پیش کرسکتے!! اور تناقض وتضاد پر مبنی زبردستی کا ایک اور کارنامہ یہ کہ دو سطر قبل خود دحو کو متعلقات ارض میں مابعد التخلیق شمار کیا!! 
تیسری زبردستی، اخراج ماء ومرعی کو دحو سے الگ مرحلہ شمار کیا، جناب اگر عربی اسلوب سے واقف ہیں، تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ایسا ہوتا تو "واخرج منہا۔۔۔" کہا جاتا، اخرج منہا صاف طور پر ماقبل ہی کی تشریح ہے!!
ایاز نظامی:جب دحو خود تخلیق کا ہی ایک مرحلہ ہے تو اسے تخلیق کہنے میں کیا مانع و حارج ہے۔
مرزا احمد وسیم بیگ: دحو تخلیق کا مرحلہ ہے، عین تخلیق نہیں! پس جو تخلیق سورہ بقرہ اور سورہ حم میں تسویہ سماء سے پہلے بیان کی گئی ہے، اس سے اس کا کوئی تعارض نہیں، بلکہ دحو اس تخلیق سے مختلف اور بعد کا مرحلہ ہے! البتہ دحو تخلیق کا مترادف ہرگز نہیں، جو آپ باور کرانا چاہ رہے ہیں، اور جس کے بغیر آپ کا تضاد کا مقدمہ ثابت نہیں ہوسکتا!!!
ایاز نظامی: کیا دحو کے بغیر اخراج الماء و مرعیٰ اور ارساء الجبال ممکن ہے ؟ 
مرزا احمد وسیم بیگ:
جناب 'دحو' نام ہی ان سارے کاموں کا ہے! زمین کو بچھانا، ہموار کرنا، زندگی کی حامل مخلوقات کے رہنے سہنے کے لئے تیار کرنا، جو کچھ چیزیں اللہ نے تخلیق کے ابتدائی مرحلے میں اس میں رکھ دی تھیں، یا جن کی اصل تخلیق فرما دی تھی، ان کو نکالنا، مقررہ مقدار میں اپنی حکمت ومشیت سے پھیلانا!!! اور اسی میں اخراج ماء ومرعی بھی آتا ہے، اور ارساء جبال بھی!!! میں نے واضح کیا کہ اگر اخراج ماء ومرعی دحو سے الگ کوئی چیز ہوتی تو واؤ استئنافیہ کے ساتھ، واخرج منہا ماءھا ومرعاھا کہا جاتا، اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، اوپر آسمان والی آیات پر غور فرمائیے، "بناھا" کی تشریح شروع کی گئی تو واو نہیں لایا گیا، "رفع سمکھا" اور "سواھا" کو جوڑنے کے لئے فا لایا گیا، پھر "اغطش" کی جگہ واو کے ساتھ "واغطش" کہا گیا۔
(جناب نظامی نے یہاں ضعیف حدیث کے ذریعے اپنے مقدمے میں جان ڈالنے کی کوشش میں کے بارے میں کچھ انتہائی مضحکہ خیز تبصرے کیے، موضوع سے غیر متعلق ہونے کے لئے ہم یہاں اس سے صرف نظر کرتے ہیں، لیکن اصل مناظرے میں اس پر ان کی اچھی طرح پکڑ کی گئی تھی، دلچسپی رکھنے والے حضرات اصل مناظرے میں ہمارا کمنٹ نمبر 17 اور 18 ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اسی طرح رتق وفتق کے قرآنی الفاظ اور تحریف کلام اللہ کی جسارت پر ہمارا رد کمنٹ نمبر 21 میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز وہ آیت جن میں یہ الفاظ آئے ہیں ان پر ہمارے جوابات کے خلاصے کے لئے ہمارا کمنٹ نمبر 23 ملاحظہ فرمایا جائے۔)
ایاز نظامی:
آپ کو ابھی تک حم سجدہ کی آیات اور نازعات کی آیات میں تضاد واقعی نظر نہیں آیا ؟ یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ؟ کیا آپ ان کے ظاہرا متضاد ہونے سے بھی انکاری ہیں ؟ مختصر ترین جواب ضرور دیجئے گا۔
مرزا احمد وسیم بیگ: جی جناب، ہمیں دو مختلف چیزوں کےوقوع کا وقت مختلف ہونے میں کوئی تضاد واقعی نظر نہیں آتا، یوں سمجھیں کہ "کمرے کی چنائی چھت پڑنے سے پہلے ہوئی تھی"، اس بات میں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ "کمرے کی فنشنگ چھت پڑنے کے بعد ہوئی تھی"، اگرچہ کمرے میں فنشنگ کا سامان پہلے ہی کیوں نہ رکھ دیا گیا ہو! یقینا پرائمری کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس میں کوئی تعارض نہیں ہے!!
ہم نے اپنے چوتھے جواب میں بحث کا خلاصہ پیش کیا :
• * پیش کردہ آیات کا مقصود اللہ کی عظمت کا بیان، اس کی نشانیوں اور نعمتوں کی یاددہانی ہے، ترتیب کا بیان مقصود نہیں ہے کہ اس سے انسانی ہدایت نہیں جڑی ہوئی... ثم اور بعد ذلک مزید برآں کے معنی میں بھی آتے ہیں.. 
• * سادہ طور پر تخلیق کے چار مراحل کہے جاسکتے ہیں، رتق وفتق (زمین وآسمان کا پہلے ملا ہوا ہونا، پھر انہیں جدا کرنا) - خلق الأرض وما فيها من حیث الأصل (زمین اور اس میں جو کچھ بھی ہے، اس کی اصل کا پیدا کرنا) - تسویہ سماء اور دحو أرض (آسمان کی درستگی، اور زمین کی ہمواری)..
• * جب تک سورہ نازعات میں مذکور دحو کے معنی میں تحریف کرتے ہوئے اسے کل مراحل تخلیق پر محیط نہ مانا جائے، قرآن کے بیان میں کوئی تعارض نہیں بنتا... اس لئے کہ دحو اور چیز ہے اور سورہ بقرہ اور حم سجدہ میں مذکور 'خلق' اور چیز ہے.. نیز خلق ہر جگہ اپنے تمام مراحل کو شامل ہو یہ ضروری نہیں... پس دو الگ الگ چیزوں کے وقوع کا وقت مختلف ہونا تضاد کیونکر کہلا سکتا ہے؟ 
• * سورہ نازعات میں مذکور دحو کا معنی "والأرض بعد ذلک دحاها" کے فورا بعد اگلی ہی آیت میں بیان ہوا ہے "اخرج منھا ماءھا ومرعاھا" لہذا اسے 'خلق' یعنی عدم سے وجود میں لانا سے بدلنا بد دیانتی ہوگا... 
• * سورہ حم سجدہ کی آیت "وجعل فیھا رواسي من فوقها وبارک فيها وقدر فيها أقواتها في أربعة أيام" میں ہم نے جو معنی اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہی دحو کا مرحلہ ہے، اسے اس وجہ سے مقدم کیا گیا ہے کہ یہاں اللہ عزوجل بندوں پر اپنے احسان شمار فرما رہا ہے، لہذا اس کو زمین کی تخلیق کے ساتھ بیان کرنا مناسب حال ہوا، اور اس میں موجود واؤ ایسا کوئی تقاضہ نہیں کرتا کہ ماقبل مستقل اور الگ آیت میں مذکور مرحلے اور اس مرحلے میں کوئی فاصلہ نہ ہو، نہ اسے ماقبل سے جوڑ کر مرتب کرنا اس سے سمجھ میں آتا ہے.. ایسی صورت میں مذکورہ آیت جملہ معترضہ شمار ہوگی اور اگلی آیت "ثم استوى الی السماء..." میں ثم کا عطف، مذکورہ آیت سے پہلے والی آیت "قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الأرض فی یومین" میں "خلق الأرض" پر ہوگا.. یہ چیز لغت کے کسی قاعدے سے متعارض نہیں ہے... 
• * واضح رہے کہ آیت میں ایک دوسرے احتمال کی بھی بھرپور گنجائش موجود ہے جسے ہم نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا تھا کہ ایک ہی پر ٹک کر بات کی جائے، وہ یہ ہے کہ یہاں پہلی دونوں آیات، یعنی "خلق الأرض" والی اور "وجعل فیھا..." والی آیات کو ایک ہی مرحلے میں شمار کیا جائے، اور اس سے وہی مراد لیا جائے جو سورہ بقرہ میں مذکور ہے... (یعنی زمین اور اس میں جو کچھ ہے، اس کی اصل کو پیدا کرنا) کیونکہ اس میں کہیں بھی پھیلانے اور نکالنے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف مقدر کرنے یا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرکے رکھ دینے کا ذکر ہے! پس یہ دحو سے مختلف اور متقدم "خلق لکم ما فی الارض جمیعا" والا مرحلہ بھی ہوسکتا ہے... اس صورت میں مابعدِ "ثم" ماقبل کے تمام امور پر معطوف ہوکر بھی نازعات میں مذکور دحو سے متعارض نہیں ہوگا.. 
• * اسی طرح کا ایک احتمال یہ بھی ہے کہ "ثم" کے لفظ سے ترتیب نہ مراد لے کر اسے برائے فصل مان لیا جائے، اور عربی زبان وادب میں اس کی بھی گنجائش اور مثالیں موجود ہیں، ملاحظہ فرمائیں لغت کی ایک اہم کتاب المصباح المنیر کا حوالہ: 
"ثُمَّ : حرف عطف وهي في المفردات للترتيب بمهلة وقال الأخفش هي بمعنى الواو لأنها استعملت فيما لا ترتيب فيه نحو والله ثم والله لأفعلن تقول وحياتک ثم وحياتک لأقومن وأما في الجمل فلا يلزم الترتيب بل قد تأتي بمعنى الواو نحو قوله تعالى {ثم الله شهيد على ما يفعلون} [يونس: 46] أي والله شاهد على تکذيبهم وعنادهم فإن شهادة الله تعالى غير حادثة ومثله {ثم کان من الذين آمنوا} [البلد: 17] [المصباح المنير في غريب الشرح الکبير (1/ 84)]
ترجمہ:
.ثم، حرفِ عطف ہے،جو مفردات (يعنی تنہا تنہا کلمات ) میں ترتیب کا فائدہ دیتا ہے،اخفش کہتے ہیں کہ یہ بمعنی "اور" کے ہے، کیونکہ یہ ان جگہوں میں بھی مستعمل ہے،جہاں پر ترتیب نہیں ہوتی۔ جیسے اللہ کی قسم پھر اللہ کی قسم، میں یہ ضرور کروں گا۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں تمہاری زندگی کی قسم پھر تمہاری زندگی کی قسم،میں ضرور کھڑا ہوں گا۔ 
جہاں تک جملوں کی بات ہے تو ان میں ترتیب کوئی لازم نہیں، بلکہ "اور" کے معنی میں آتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : {ثم الله شهيد على ما يفعلون} [يونس: 46] "اور اللہ شاہد ہے اس پر جو وہ کرتے ہیں"۔یعنی اور اللہ انکی تکذیب اور عناد پر گواہ ہے۔ کیونکہ یقیناً اللہ کا شاہد ہونا غیر حادث ہے۔ اسی کی مثال ہے؛{ثم کان من الذين آمنوا} [البلد: 17]" اور وه ایمان والوں میں سے تھے۔۔۔"
تو جناب اس توضيح سے تو جنابِ نظامی کے سارے مقدمے کی اساس ہی منہدم ہوگئی ! جملوں میں تو 'ثم' ترتیب کے لئے آتا ہی نہیں ہے! اس لحاظ سے سورہ بقرہ اور سورہ حم میں ترتیب صرف بیان کی ترتیب مانی جائے گی، وقوع کی ترتیب نہیں مانی جائے گی، یا اسے مزید برآں کے معنی میں لیا جائے گا! اس طرح "دحو" کو تخلیق قرار دینے والے وہم کے برقرار رہتے ہوئے بھی تضاد جاتا رہتا ہے!
اسی کے برعکس احتمال بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ یہی معاملہ بعد ذلک کا بھی ہے، بعد ذلک کو مزید برآں کے معنی میں لینے میں بھی لغت میں کوئی رکاوٹ نہیں! (ملاحظہ فرمائیں ہمارا کمنٹ نمبر 10) 
• * تضاد اس وقت ہوتا ہے جب کہ ہم کوئی ایسا معنی لینے پر "مجبور" ہوں، جس سے تضاد لازم آئے، جبکہ یہاں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے... متعدد واضح معانی کا احتمال موجود ہے، جن میں کوئی ٹکراؤ نہیں... 
• * ان احتمالات میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے سے آیات کے اصل مقصود میں کہ جس کا ذکر کیا گیا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا...
• * ہم نے جو معنی اختیار کیا، اور جو وضاحت بیان کی وہ اس مکالمے کے پیش نظر وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ نقل ہوتی ہوئی آئی ہے، چنانچہ بطور مثال صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سورة حم السجدة کے اندر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے.
نظامی صاحب کےچند مزید اشکالات(خلاصے میں مذکور اشکالات کے علاوہ )، جن کو بار بار پوری قوت سے رد کیا گیا، مگر وہ اب بھی ان ہی پر اصرار کر رہے ہیں :
(
۱) ان کے بقول رتق اور فتق تخلیق سے متعلق نہیں ہیں، جب کہ ہم نے بتایا کہ سیاق وسباق بھی یہی کہتے ہیں اور لغوی معنی بھی اسی کی تائید کررہے ہیں، اور مفسرین کا بہانہ بھی نہیں چل سکتا کیوں کہ ابن عباس ، حسن ، عطا ، ضحاک اور قتادہ وغیرہ سلف سے اس کی یہ تفسیر ثابت ہے (دیکھیں طبری وقرطبی ودیگر کتب تفسیر) کہ زمین وآسمان ملے ہوئے تھے!اسی ضمن میں رتق اور فتق کے معنی کو بھی رکھ لیں، جسے ہم نےکمنٹ نمبر7 اور 13 میں بیان کیا۔۔۔ اور نظامی صاحب کے کمنٹ نمبر 13 کے جواب (کمنٹ نمبر 21) میں مزید اس کی توکید بھی کردی گئی!
(2) آنجناب کا خیال ہے کہ لفظ تخلیق چونکہ بعض جگہوں پر تمام مراحل کو شامل ہے، اس لئے ہر جگہ اس سے تخلیق کے تمام مراحل مراد لیے جائیں، جس کے بعد کسی اضافی تکمیلی، تحسینی، تزئینی وغیرہ مرحلے کی گنجائش نہ ہو! حالانکہ کامن سینس کی بات ہے کہ اگر ایک جگہ یا بعض جگہوں پر تخلیق کا لفظ بول کر اس کے تمام مراحل مراد لئے گئے ہیں تو یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ ہر جگہ اس سے تمام مراحل مراد لئے جائیں، اس پر ہم نے واضح شواہد خود قرآن ہی سے پیش کیے، مگر نظامی صاحب نے اس پر توجہ دینے یا ان کا جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں فرمائی! اسی ضمن میں ان کا یہ اشکال ہے کہ "تسویہ" اور "دحو" تخلیق سے کوئی الگ چیز نہیں، بلکہ ہر جگہ تخلیق میں یہ شامل ہے ، جو کہ ایک بے بنیاد ضد ہے! 
(3) دحو کو آنجناب تخلیق ہی قرار دیتے ہیں، حالانکہ دحو کی تشریح خود قران ہی نے کردی جیسا کہ بار بار عرض کردیا گیا! اور دحو کے معنی تخلیق کے ہرگز کسی لغت میں نہیں ہیں!
(4) نظامی صاحب کے خیال میں ترتیب جو ہم بیان کر رہے ہیں وہ قرآنی نہیں ہے، حالانکہ عین قرانی ترتیب ہم بیان کررہے ہیں!یعنی پہلے رتق وفتق پھر زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کی من حیث الاصل تخلیق، پھر آسمان کا "تسویہ" ، پھر زمین کا "دحو" یعنی لوازمات حیات سے اسے آراستہ کرنا! (ملاحظہ فرمائیں ہمارا کمنٹ نمبر 16 ودیگر مقامات)
(5) یہ شبہہ کہ ثم اور بعد ذلک ہر جگہ ترتیب وقوع کے لئے آتے ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے بتایاثم بھی، صرف جملوں کی ترتیب یا بیان کی ترتیب کے لئے آسکتا ہے، اور بعد ذلک میں "بعدیت" وجود میں آنے کی ترتیب کے علاوہ بھی متعدد چیزوں کی طرف راجع ہوسکتی ہے!
(6) حدیث ضعیف سے استدلال پر بھی نظامی صاحب کو اصرار ہے، حالانکہ حدیث ضعیف کہتے ہی اسےہیں جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ثابت ہی نہ ہوتی ہو!
(7) ایک نہایت اہم اشکال جو سارے فساد کی جڑ ہے، وہ نظامی صاحب کی یہ بچکانہ سوچ کہ اگر کسی کے بھی ذہن میں کوئی ایسا معنی آجائے جس سے تضاد لازم آتا ہو، تو تضاد ثابت ہوسکتا ہے! حالانکہ تضاد صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب کہ ہم ایسا معنی لینے پر مجبور ہوں، جس سے تضاد لازم آرہا ہو!! جب کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں متعدد معانی کی اس خوبصورتی سے گنجائش ہے کہ اصل مقصود پر ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑتا، اور تضاد کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا!! 
یوں بحث یہیں اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی، بلکہ اس سے بہت پہلے، کیوں کہ نظامی صاحب کے پاس ہماری معروضات کے جواب میں سوائے تکرار کے کچھ نہیں تھا، لیکن پھر بھی ان کی خواہش پر اسے دو جوابات تک اور جاری رکھا گیا۔
بار بار وضاحت کرنے کے باوجود نظامی صاحب نے جن کج فہمیوں، نیز لغوی ونحوی غلطیوں یا مفروضات اور زبردستیوں پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی اور جن پر آخر تک قائم رہے، اور کسی ایک بھی علمی مقام پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ، وہ یہ ہیں: (1) دحو سے خلق مراد ہونا، (2) خلق میں ہر جگہ دحو کا شامل ہونا، (3) فتق کا معنی اصلاح ہونا، اور رتق کا معنی رکا ہوا ہونا یا بنجر ہونا۔۔(واضح رہے کہ فتق کا معنی اصلاح ہرگز نہیں ہوتا، بلکہ اس کی عین ضد یعنی پھاڑنا، شگاف ڈالنا ہوتا ہے، جب کہ رتق کا معنی پھٹے ہوئےکو جوڑنا یا ملانا، اسی معنی میں اس کے تحت بند ہونا بھی شامل ہے، مگر بند ہونا بمعنی رکنا اس کا معنی نہیں، اسی مذکور معنی میں اس کے ضمن میں اصلاح کا لفظ بھی آیا ہے، مگر اردو والی اصلاح وہ ہرگز نہیں ہے۔) (4) "رأی" سے ہر جگہ رویت بصری مراد ہونا، نیز اس کے لئے مخاطب کا وقوع کے وقت موجود ہونا (5) "ثمّ" سے ہر حال میں (جملوں میں بھی) ترتیب کا مراد ہونا (6) ترتیب ہر حال میں وقوع ہی میں ہونا، کسی معنوی امر میں نہ ہونا (7) کلام میں جملۂ معترضہ کے وجود کو مسلسل نظر انداز کرکے عملا اس کا انکار کرنا (8) واؤ کے ذریعے (اور اگر اس کے ذریعے نہیں تو بلا سبب) دو مرحلوں کو آپس میں حتمیت کے ساتھ فوریت وترتیب کا متقاضی گردانتے ہوئے نتھی کرنا (9)تضاد کا یہ غلط مفہوم سامنے رکھنا کہ اگر کسی کے بھی ذہن میں قرآن کا یا کسی بھی کلام کا ایسا مفہوم آجاتا ہے، جو متضاد ہے، تو اس سے تضاد ثابت ہوسکتا ہے (10) تضاد کے پائے جانے کے شرائط کو مسلسل نظر انداز کرنا، جیسے دو مختلف چیزوں کے وقوع کے وقت میں اختلاف کو تضاد گردانتے رہنا! (
۱۱) حدیث ضعیف کو دلیل گرداننا،(نیز حاکم کی تصحیح کو حتمی سمجھنا حالانکہ وہ متساہل ہیں۔)
یہ اور ان جیسے کچھ اوربے بنیادمفروضات تھے، جن پر نظامی صاحب کا مقدمہ قائم تھا، اور جب نظامی صاحب اپنی بنیادوں ہی کا دفاع نہ کرسکے، تو بھلا مقدمہ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟؟
ایاز نظامی صاحب ایک ہی بات کو باربار دوہراتے رہے جس سے بحث طویل ہوتی گئی۔۔ اس تکرار کو حذف کرتے ہوئے ہم نے مکمل مناظرے کو الگ سے بھی ترتیب دیا ہے جو اس لنک سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے آخر میں موجود لنک سے اصل مناظے کی پی ڈی ای فائل بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔