CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Sunday, August 28, 2016

AITRAAZ : ALLAH KI RAAH ME KHARCH KARNE KA HUQM



اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔


اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مختلف جگہ پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی تعلیم دی ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ اس بات کو ایک " خبیث" ملحد نے یوں لیا ہے کہ نعوز باللہ نبی ﷺ امت سے معاوضہ یا مزدوری کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ۔ اس موٹے دماغ کو یہ نہیں سمجھ کہ قرض حسنہ اور اللہ کی راہ میں خرچ کا کیا مطلب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں
قرآنِ کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح (قرضِ حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواوٴں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے؛ غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں، جیسا کہ مفسرین نے اپنی تفسیروں میں تحریر فرمایا ہے۔ اسی طرح قرضِ حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
اللّہ نے بندوں کی ضرورت میں خرچ کرنے کو قرضِ حسن سے کیوں تعبیر کیا ؟
اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال ودولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے ، بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے،ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں، تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں ، یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں، غریب محتاجوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی وعصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، دونوں جہاں میں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اپنے مہمان خانہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت ابو الدحداح کا واقعہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب قرضِ حسن سے متعلق آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح انصاری حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: ہاں۔ وہ عرض کرنے لگے: اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجیے (تاکہ میں آپ اکے دست مبارک پر ایک عہد کروں)۔ حضور اکرم ا نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ حضرت ابو الدحداح انصاری نے معاہدہ کے طور پر حضور اکرم ا کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔ یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ گئے اور اپنی بیوی ام الدحداح سے آواز دے کر کہاکہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دیدیا۔ (تفسیر ابن کثیر)
یہ ہے وہ قیمتی سودا جو حضرت ابوالدحداح نے کیا، ان کے پاس دو باغ تھے، ان میں سے ایک باغ بہت قیمتی تھاجس میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، جس کو وہ خود بھی بہت پسند کرتے تھے اور اسی میں وہ اور ان کے بچے رہتے تھے، لیکن مذکورہ آیت کے نزول کے بعد یہ قیمتی باغ ضرورت مند لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایاہے: ﴿یُوٴثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ﴾ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے خود ان کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (الحشر ۹)۔
قرآن میں قرضِ حسن کے مختلف بدلے :
۱) فَیُضَاعِفَہُ لَہُ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً / فَیُضَاعِفَہُ لَہُ / یُضَاعَفُ لَہُمْ / یُضَاعِفْہُ لَکُمْ
دنیا میں بہترین بدلہ۔
۲) وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ / وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ دنیا وآخرت میں بہترین بدلہ۔
۳) تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْراً وَّاَعْظَمَ اَجْراً آخرت میں عظیم بدلہ۔
۴) لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ / وَیَغْفِرْ لَکُم گناہوں کی معافی۔
۵) وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ جنت میں داخلہ۔
اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی مثالیں:
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرضِ حسن سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بندوں کی مدد کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے چند فضائل تحریر ہیں:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (سورہٴ البقرہ ۲۶۱)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (البقرہ ۲۶۵)
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ذکر کی گئی ہیں: وسیع اور علیم۔ یعنی اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ جتنے اجر کا عمل مستحق ہے وہ ہی دے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اور جس جذبہ سے کیا جاتا ہے، اس سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اس کا اجر ضرور دے گا۔
قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ کس کو دیں؟
جن حضرات کو قرض حسن اور صدقات دئے جاسکتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں :
غریب رشتہ دار، یتیم، بیوہ، فقیر، مسکین، سائل، قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو، اور وہ مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
آتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ وَالسَّائِلِیْنَ (البقرہ ۱۷۷)
جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔
وَفِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۱۹)
ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا حق ہے۔
قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کریں:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران ۹۲)
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوٴگے۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ (البقرة ۲۶۷)
اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔
جب ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ (بَیرحَاء )سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ا نے فرمایا : اے طلحہ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق بھی رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے، میں اُسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ انے فرمایا : اسے وقف کردو! اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (اُس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اِس زمانہ میں گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرم ا نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ کو دیدیا۔ حضرت زید کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔
# غرضیکہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں 
دیں، جن کو نبی اکرم ا نے ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم کیں۔


ایک خبث ملحد کی پوسٹ 

No comments:

Post a Comment