CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

قرآن کریم کے نبی کریمﷺکی تصنیف نہ ہونے پرکیادلائل ہیں؟


قرآن کریم کے نبی کریمﷺکی تصنیف نہ ہونے پرکیادلائل ہیں؟۔



قرآن کریم کے رسولﷺیاکسی اورانسان کی تالیف ہونے کادعوی زمانۂ جاہلیت کے بعض افراداورقرآنِ کریم سے عداوت رکھنے والے مستشرقین کے سواکسی نے نہیں کیا۔
مستشرقین یہ دعویٰ کرکے ذہنوں کو پراگندہ کرناچاہتے ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ ماضی وحال کے مشرکین کی سوچ غیرجانبدارانہ نہیں،بلکہ بغض وعداوت پرمبنی ہے،کیونکہ قرآن کریم کے ہرلحاظ سے انسانی استطاعت سے بہت بلند ترمقام پرفائز ہونے کی وجہ سے جو شخص بھی انصاف پسندی اور غیرجانبداری سے اس کا بغورمطالعہ کرتاہے وہ اس نتیجے پرپہنچتاہے کہ اس کا سرچشمہ خداکے سواکوئی اورنہیں ہوسکتا۔
ہم اس موضوع کے تفصیلی مطالعے میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کو اس موضوع پرعظیم مفکرین کی تحریروں کی طرف مراجعت کرنے کامشورہ دیں گے اورآئندہ سطورمیں اس موضوع سے متعلق چندبنیادی باتوں کا تذکرہ کرنے پراکتفاکریں گے۔
۱۔ قرآنِ کریم اوراحادیث نبویہ کے اسلوب میں واضح فرق موجودہے،یہی وجہ تھی کہ جب اہل عرب رسول اللہﷺکی احادیث مبارکہ کو اپنے عام اندازگفتگو کے مطابق پاتے توقرآن کریم کے معجزانہ اسلوب پرحیرت واستعجاب کا اظہارکیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔
۲۔ احادیث نبویہ کامطالعہ کرنے والے کوواضح طورپرمحسوس ہوتاہے کہ یہ کسی ایسے شخص کی گفتگو اورنتیجۂ فکرہے، جس کا دل خوفِ خداسے لبریزہے،لیکن اس کے برعکس قرآن کریم کے اسلوب میں جاہ و جلال، دبدبہ اورعظمت جھلکتی ہے۔ایک ہی شخص کے اندازِ گفتگو میں اس قدر تفاوت ناممکن اورناقابل فہم ہے۔
۳۔ ایک ایسے اُمّی شخص(میری ماں باپ اس پرقربان ہوں)جس نے کبھی مدرسے کامنہ دیکھااورنہ کوئی کتاب پڑھی، کی جانب سے ہرعیب ونقص سے پاک ایسے جامع نظام کا پیش کیاجانا، جس کی ہمہ گیری میں فرد، خاندان، معاشرہ، معاشیات اورقانون سب داخل ہوں نہ صرف ناممکن ہے، بلکہ عقل و فکر اور کامن سینس کے بھی خلاف ہے، خصوصاً جبکہ وہ نظام نہ صرف زمانہ درازتک مختلف اقوام کے ہاں قابل عمل رہاہو،بلکہ آج بھی قابل عمل ہو اور اس کی ترو و تازگی برقرارہو۔
۴۔ قرآنِ کریم میں زندگی،کائنات اوران سے متعلقہ موضوعات، عبادات، قوانین اورمعاشیات وغیرہ میں اس قدرحیرت انگیزتوازن پایاجاتاہے کہ اگراس کی نسبت کسی انسان کی طرف کی جائے تواسے مافوق الفطرت ہستی تسلیم کرناپڑے گا،کیونکہ اوپرذکر کردہ مسائل میں سے ہرایک مسئلہ زمانے کی حدودسے ماورا اور اعلیٰ ترین عبقری صلاحیتوں کے حامل انسان کی استطاعت سے بھی خارج ہے، لہٰذا ایسے سینکڑوں مسائل جن میں سے ایک مسئلہ بھی بڑے بڑے عبقری انسانوں کے لیے پیش کرناممکن نہیں، پرمشتمل کتاب کو ایسے امی شخص کی طرف منسوب کرنا جس نے کسی مدرسے کامنہ دیکھاہو اور نہ کوئی کتاب پڑھی ہو،بے بنیادخام خیالی کے سواکچھ نہیں۔
۵۔ قرآنِ کریم کی ایک خارق العادت خصوصیت یہ ہے کہ یہ ماضی اورمستقبل کے بارے میں غیب کی خبروں پرمشتمل ہے، لہٰذااسے انسانی کلام قرارنہیں دیاجاسکتا۔قرآن کریم نے صدیوں پیشترماضی کی قوموں کی طرز زندگی، معیشت اوراچھے یا برے انجام کے بارے میں جو معلومات فراہم کی تھیں، دورِحاضرکی تازہ ترین تحقیقات سے ان کی صداقت ثابت ہوچکی ہے۔ حضرت صالح، حضرت لوط اورحضرت موسی علیہم السلام کی قوموں کے حالاتِ زندگی اوران کی نشان عبرت بننے والی رہائش گاہیں سب کے سامنے موجودہیں۔
قرآنِ کریم نے ماضی کی اقوام کے حالات کی طرح مستقبل کے واقعات کے بارے میں بھی معجزانہ اندازمیں پیش گوئیاں کی ہیں، مثلاًقرآنِ کریم نے فتح مکہ کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا، نیز یہ بھی بتادیاتھاکہ مسلمان فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے اطمینان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے:﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤُوسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِکَ فَتْحاً قَرِیْباً﴾ (الفتح: ۲۷)‘‘بے شک اللہ نے اپنے پیغمبر کو سچا اور صحیح خواب دکھایا تھا کہ تم ان شاء اللہ مسجد حرام میں اپنے سر مڈوا کر یا اپنے بال ترشوا کر امن و امان سے داخل ہو گے اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے۔ جو بات تم نہیں جانتے تھے اللہ کو معلوم تھی، سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد ایک فتح عطا فرمائی۔ ’’قرآنِ کریم نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ دین اسلام تمام غلط نظاموں پر غالب آکر رہے گا: ﴿ھُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفَی بِاللَّہِ شَہِیْداً﴾ (الفتح: ۲۸) ‘‘وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی کتاب اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے اور حق ثابت کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ ‘‘
قرآنِ کریم کی ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ رومیوں پرغالب آنے والے ساسانیوں کو کچھ سالوں کے بعدشکست ہوجائے گی اورمسلمان ایک آنے والی فتح پرخوش ہوں گے۔اس فتح کا مصداق غزوہ بدر کی فتح ہے،جوایک رائے کے مطابق رومیوں کی فتح کے زمانے میں ہی مسلمانوں کوحاصل ہوئی: ﴿الم o غُلِبَتِ الرُّومُ o فِیْ أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُم مِّن بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ o فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلَّہِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَیَوْمَءِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ﴾ (الروم: ۱۔۴) ‘‘الم۔ اہل روم مغلوب ہو گئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہو نے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے چند ہی سال میں۔ پہلے بھی اور بعد میں بھی اللہ ہی کا حکم ہے اور اس روز مؤمن خوش ہوجائیں گے۔ ‘‘
چنانچہ وقت مقررہ پرقرآنِ کریم کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔اسی سے ملتی جلتی آیت حسبِ ذیل ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن﴾ (المائدۃ: ۶۷) ‘‘اے پیغمبر! جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کا پیغام پہنچانے میں قاصر رہے اور اللہ تعالیٰ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بے شک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔’’اگرچہ آپﷺدشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور چچا، قوم اور اردگردکی حکومتیں آپ کی جان کے درپے تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے آپ ﷺکی حفاظت کا وعدہ فرمایااوراس وعدے کو پوراکرکے دکھایا۔
آیت مبارکہ ﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ﴾ (فصلت: ۵۳) ‘‘ہم عنقریب ان کو اطرافِ عالم میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے۔’’ سے ثابت ہوتاہے کہ مستقبل میں روایتی اورنفسیاتی علوم میں کافی ترقی ہوگی اوریہ ترقی انسان کو ایمان کے قریب ترلے آئے گی۔ دورِحاضر میں سائنسی علوم اس مقصدکوتیزی سے حاصل کررہے ہیں اوراس کے کافی قریب پہنچ چکے ہیں۔
مزیدبرآں قرآنِ کریم نے سارے جن وانس کوچیلنج کیاہے:﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً﴾ (الاسراء: ۸۸) ‘‘کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔’’یہ چیلنج مکہ معظمہ میں اس آیت کے نزول سے لے کر آج تک قائم ہے۔سوائے دوایک بے معنی کوششوں کے کسی نے اس چیلنج کوقبول کرنے یا قرآن کریم کے مشابہ کلام پیش کرنے کی جرأت نہیں کی۔یہ قرآن کریم کی صداقت اوراعجاز کی روشن ترین دلیل ہے۔
نزولِ قرآن کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت کمزوراور ناتواں تھے۔وہ کسی قسم کی طاقت اورقوت کے مالک تھے اورنہ ہی ان کے ذہن میں مستقبل کے بارے میں کوئی واضح خاکہ تھا،لہٰذا ان کے ذہنوں میں دنیاپرحکمرانی کرانے کاخیال تھااورنہ ہی مستقبل میں سارے عالمی نظاموں پرغالب آنے والے اپنے دین کی طاقت کے سرچشموں کے بارے میں کوئی منصوبہ تھا، لیکن قرآنِ کریم کہتاہے: ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ
الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (النور: ۵۵) ‘‘جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے، مستحکم و پائیدار کرے گااور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔ ‘‘قرآنِ کریم اس اندازسے انہیں خطاب کرکے انہیں ان کے اعلیٰ اہداف سے آگاہ کرتا اور انہیں دنیاپرحکمرانی کی خوشخبری سناتا۔دیگر بہت سی آیات مبارکہ جنہیں یہاں ذکرکرنا ممکن نہیں،اسلام اورمسلمانوں کی فتوحات اورہزیمتوں اور عروج و زوال کاتذکرہ کرتی ہیں۔
مستقبل کے بارے میں قرآنِ کریم کی بیان کردہ اکثرو بیشترپیش گوئیاں مختلف علوم میں ہونے والی تحقیقات وانکشاف کامنتہاہوں گی۔قرآنِ کریم نے بعض سائنسی حقائق کے بارے میں جومعلومات فراہم کی ہیں، وہ اس قدرحیران کن ہیں کہ انہیں نظراندازکیاجاسکتاہے اور نہ ہی کسی انسان کی طرف منسوب کیاجاسکتاہے۔چونکہ بہت سی کتابوں میں اس موضوع پر سینکڑوں آیات کے ضمن میں سیرحاصل بحث کی جاچکی ہے، اس لیے ہم اس موضوع کی تفصیلات جاننے میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کو ان کتابوں کی طرف مراجعت کامشورہ دینگیں ۔۔
۵۔ جس طرح قرآنِ کریم نے رسول اللہﷺکو آپ کے وظائف، ذمہ داریوں، فرائض اور صلاحیتوں کے بارے میں تعلیم دی، اسی طرح بعض اوقات آپ کوتنبیہہ کی اورآپ پراظہار ناراضگی بھی کیا،مثلاًجب آپﷺنے بعض منافقین کوجہادمیں نہ جانے کی اجازت دی، جبکہ انہیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی تودرج ذیل آیت مبارکہ نازل ہوئی: ﴿عَفَا اللّہُ عَنکَ لِمَ أَذِنتَ لَہُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِیْن﴾ (التوبۃ: ۴۳)‘‘اللہ تمہیں معاف کرے تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھو ٹے ہیں ان کو اجازت کیوں دی۔’’ اسی طرح قرآن کریم نے بدرکے قیدیوں کے بارے میں بھی آپﷺکے موقف کی حمایت نہیں کی اورکہا: ﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِیْ الأَرْضِ تُرِیْدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّہُ یُرِیْدُ الآخِرَۃَ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o لَّوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (الأنفال: ۶۷۔۶۸)‘‘پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک کافروں کو قتل کر کے زمین میں کثرت سے خون نہ بہا دے۔تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو اور اللہ آخرت کی بھلائی چاہتا ہے اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔اگر اللہ کا حکم پہلے نہ ہو چکا ہو تا تو جو فدیہ تم نے لیا اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔‘‘
جب قریش نے رسول اللہ ﷺسے روح،اصحاب کہف اورذولقرنین کے بارے میں پوچھاتوآپﷺنے ان سے فرمایا:‘‘کل میرے پاس آنامیں تمہیں ان کے بارے میں بتا دوں گا۔’’لیکن آپﷺنے‘‘ان شاء اللہ تعالیٰ’’نہ کہا،اس پرآپﷺکی تنبیہہ کے لیے درج ذیل آیت مبارکہ کانزول ہوا: ﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّیْ فَاعِلٌ ذَلِکَ غَداً o إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ﴾ (الکھف: ۲۳۔۲۴)‘‘اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا، مگر انشاء اللہ کہہ کر یعنی اگر اللہ چاہے تو کردوں گا۔’’ ایک اورموقع پرلطیف پیرائے میں آپﷺ پر اس بارے میں عتاب کیاگیاکہ صرف اللہ سے ڈرناچاہیے: ﴿وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللَّہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللَّہُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاہُ ﴾ (الأحزاب: ۳۷) ‘‘اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ جانتا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے ، حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔’’اسی طرح جب آپﷺنے اپنی بعض ازواجِ مطہرات کی خوشنودی کی خاطر شہد کا پانی نہ پینے کی قسم اٹھائی توقرآن نے اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے ناراضگی کااظہارکیا: ﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التحریم: ۱)‘‘اے پیغمبر جو چیز اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہے اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ کیا اس سے بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو ؟ اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
لہٰذاجہاں بہت سی آیات رسول اللہﷺکی ذمہ داریوں،فرائض اورآپ کی صلاحیتوں کی حدودکی وضاحت کرتی ہیں، وہیں جب آپﷺمقربین کی حدودسے سرِمو باہر نکلتے ہیں توبعض آیات آپ کی راہنمائی اورتنبیہہ کے لیے نازل ہوجاتی ہیں۔کیاکوئی شخص اپنی تالیف کردہ کتاب میں اپنے ہی بارے میں تنبیہات اور عتاب آمیز کلام شامل کرسکتاہے؟اس کا جواب یقینانفی میں ہے، لہٰذاقرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اورآپﷺاللہ تعالیٰ کے بلندپایہ رسول اورمبلغ ہیں۔
۶۔ قرآنِ کریم بلاغت کے ایسے بلندترین مقام پرفائزہے کہ اس بارے میں کوئی اس کا شریک ہے اورنہ اس جیساہے ، لہٰذا اسے کسی انسان کی طرف منسوب کرناممکن نہیں۔جس وقت رسول اللہﷺنے نبوت کااعلان فرمایااس وقت وہاں بہت سے قابل فخراورمتاثرکن شعراء اور بلاغت و بیان کے ماہرین موجودتھے اور ان میں سے اکثرآپﷺکے مخالفین میں شامل تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کامقابلہ کرنے کے لیے کئی بارمشورہ کیا حتی کہ بسااوقات اس بارے میں یہود و نصاریٰ کانقطۂ نظرجاننے کے لیے ان سے بھی رابطہ کیا،کیونکہ انہوں نے قرآن کریم کے سیلِ رواں کوروکنے اوراس کے چشمۂ حیواں کو خشک کرنے کاعزم کررکھاتھااوراس مقصدکے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیارتھے،لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود آپ کافروں اور بے دینوں کے خلاف ڈٹے رہے اوراس جدوجہدکے دوران آپﷺکاواحدہتھیار قرآنِ پاک تھا، یہاں تک کہ آپﷺکو دشمنوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی فتح حاصل ہوئی۔
جب فصحائے عرب نے علمائے یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل کراسلام کے خلاف آسمان سر پر اٹھا رکھاتھا،اس وقت قرآن کریم کافصیح وبلیغ اسلوب، سحرانگیز گفتگو اور دلکش روحانیت دلوں کو فتح کررہی تھی۔قرآن کریم نے اپنے مخالفین کوبرسرمیدان اپنے جیسا کلام پیش کرنے کاچیلنج کیا: ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً﴾ (الاسراء: ۸۸)‘‘کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پرمجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنالائیں تواس جیسانہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار ہوں۔’’ پھرمزیدکہاکہ اگران سے یہ نہیں ہوسکتا تواس جیسی دس سورتیں لے آئیں:﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ (ھود: ۱۳)‘‘کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن ازخود بنا لیا ہے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلا بھی لو۔’’ اور اگراس پربھی انہیں قدرت نہیں ہے تو صرف ایک سورت ہی پیش کردیں: ﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ (البقرۃ:۲۳)’’اور اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘ بصورت دیگراپنی شکست تسلیم کرلیں۔
اس طرح ایک کے بعد دوسرا چیلنج کیاجاتارہا،لیکن دو ایک لغو قسم کی کوششوں کے سوا کسی نے ان چیلنجوں کوقبول کیااورنہ کسی کی ایساکرنے کی ہمت ہوئی۔(22)یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآنِ کریم کاسرچشمہ انسانی نہیں ہے،کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہﷺکے مخالفین اور دشمنوں نے آپﷺسے دشمنی اور جنگ کرنے اورآپ کوایذائیں پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا،لیکن اس کے باوجود انہوں نے قرآن کے مشابہ کلام پیش کرنے کاکبھی سوچابھی نہیں۔اگریہ ان کے بس کی بات ہوتی تو ایساکرنے میں ذرا دریغ نہ کرتے اوراس کے ذریعے قرآن کریم کی آوازدبادیتے۔ایسی صورت میں انہیں جنگ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی،لہٰذا فصاحت وبلاغت کے شہسواروں کاجنگ کاراستہ اختیارکرناکہ جس میں جان اورعزت وآبرو داؤ پر لگ جاتی ہے، ان کے قرآنِ کریم کے چیلنج کا جواب نہ دے سکنے کی کھلی دلیل ہے۔
فصحائے عرب کے قرآن کریم جیساکلام پیش نہ کرسکنے کے بعد قرآن کریم کے ماخذ کو علمائے یہودونصاری کے ہاں تلاش کرناایک لاحاصل جستجواورناکامی کی علامت ہے۔اگرقرآن کریم جیسے پرحکمت مضامین پر مشتمل کتاب تیارکرنایہودونصاری کے بس میں ہوتاتووہ اسے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرنے کی بجائے خوداس پرفخرکرتے۔
نیزاگرہم گنتی کے چندمستشرقین اورکفار سے قطع نظرکرلیں توہزاروں ایسے مفکرین، اہل تحقیق اوراہل علم ہیں، جنہوں نے قرآن کے مضامین کی عظمت اوراس کے اسلوب کی بلاغت پرحیرت واستعجاب کااظہارکیاہے،چنانچہ چارلس ملرلکھتاہے:‘‘قرآن کریم کے اسلوب کی بلاغت اوراس کے مضامین کی عظمت کی وجہ سے اس کا ترجمہ کرنامشکل کام ہے۔’’وکٹر امبروس لکھتاہے کہ قرآن کے مضامین میں اس قدروسعت پائی جاتی ہے کہ وہ تمام قوانین کے لیے ماخذ بن سکتا ہے۔ارنسٹ رینان لکھتاہے کہ قرآن نے دینی انقلاب کے ساتھ ساتھ ادبی انقلاب بھی برپا کیا ہے۔گستاو لے بون اعتراف کرتاہے کہ قرآن کالایاہوادین اسلام سب سے زیادہ خالص اور صاف ستھراعقیدۂ توحیدپیش کرتاہے۔کے اے ہیورٹ کہتاہے کہ اسے یقین ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول محمدﷺپر نازل ہونے والی وحی ہے۔ایچ ہولمین لکھتا ہے: ‘‘محمدﷺ خدا کی طرف سے انسانیت کی طرف آخری رسول ﷺہیں اوردین اسلام آخری آسمانی مذہب ہے۔’’امیل درمنھیم(کذا) کو اعتراف ہے کہ قرآن رسول اللہﷺکاسب سے پہلامعجزہ ہے، جو اپنے لازوال حسن وجمال کی وجہ سے ہمیشہ ایک ناقابل حل معمہ بنارہے گا۔’’
آرتھربلغزی کہتاہے:‘‘محمدﷺنے جس قرآن کوپہنچایاہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔’’ جین پال روکس لکھتاہے:‘‘پیغمبر اسلام کاسب سے بڑامعجزہ ان پر نازل ہونے والاقرآن ہے۔’’ رائمنڈچارلس کی رائے میں قرآن بندوں تک پہنچنے والی پہلی الہامی کتابوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ حیات بخش کتاب ہے۔ڈاکٹرموریس لکھتے ہیں:‘‘قرآن معجزہ اور ناقابل تدقن ہے۔ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ادبی ماخذہے، ماہرین لغت کے لیے اس میں زبان کابہت بڑا ذخیرہ ہے اورشعراء کے تخیلات کاسرچشمہ ہے۔’’مانویل کنگ لکھتے ہیں:‘‘نبوت کے طویل عرصے میں رسول اللہﷺکووصول ہونے والی وحی کے کامل ترین مجموعے کانام قرآن ہے۔’’ روڈویل کہتے ہیں:‘‘جب بھی انسان قرآن کی تلاوت کے دوران غوروفکرکرتاہے وہ حیرت واستعجاب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتاہے۔‘‘
یہ اقتباسات بعض اہل علم اورمفکرین کی گفتگوکے چندایک جملے ہیں،ورنہ ان کے علاوہ سینکڑوں اور لوگ بھی اسی نتیجے پرپہنچے ہیں اور قرآنِ حکیم کے اسلوب پرحیرت و استعجاب کااظہارکئے بغیرنہ رہ سکے۔بہت سے اساتذہ کرام اورپروفیسرحضرات نیزاس موضوع پر لکھی گئی گرانقدر کتابوں کی موجودگی میں ہمارے لیے مزید کوئی بات کہناشاید مناسب نہیں، تاہم ہم نے اس سلسلے میں تھوڑی سے جرأت سے کام لیاہے۔ امیدہے کہ صاحب قرآنﷺ اس جرأت سے درگزر فرمائیں گے۔
محمد فتح اللہ گولن


Top of Form


No comments:

Post a Comment