CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Thursday, October 6, 2016

zamin o asmaan ki takhliq 6 ya 8 din


اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 3
افلاک و ارض کی تخلیق چھ یا آٹھ روز میں؟
" قرآن کئی مقامات پر یہ بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا کئے گئے، لیکن سورۃ فُصِلت ( حم السجدہ ) میں کہا گیا کہ زمین و آسمان 8 دنوں میں بنائے گئے، کیا یہ ایک تضاد نہیں؟ اسی آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی اور پھر اس کے بعد آسمان 2 دنوں میں پیدا کیئے گئے،"
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ قرآن کے مطابق آسمان اور زمین 6 دنوں، یعنی چھ ادوار میں پیدا کئے گئے ۔ اس کا ذکر حسب ذیل سورتوں میں آیا ہے:
٭ سورۃ اعراف کی آیت 54
٭ سورۃ یونس کی آیت 3
٭ سورۃ ہود کی آیت 7
سورۃ فرقان کی آیت 59
٭ سورۃ سجدی کی آیت 4
٭ سورۃ ق کی آیت 38
٭ سورۃ حدید کی آیت 4
وہ آیاتِ قرآنی جو آپ کے خیال میں یہ کہتی ہیں کہ آسمان و زمین آٹھ دنوں میں پیدا کیے گئے ، وہ 41 ویں سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) کی آیاات: 9 تا 12 ہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ :
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٩)وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (١٠)ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلأرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١١)فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (١٢)
" ( اے نبی! ) ان سے کہیئے: کیا تم واقعی اس ذات سے انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا؟ وہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس نے اس ( زمین ) میں اس کے اوپر پہاڑ جما دیئے، اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں غذاؤں کا ( ٹھیک ) اندازہ رکھا۔ یہ ( کام ) چار دنوں میں ہوا، پوچھنے والوں کے لیے ٹھیک ( جواب ) ہے، پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے اس (آسمان ) سے اور زمین سے کہا: وجود میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو، دونوں نے کہا: ہم آگئے، فرمانبردار ہوکر۔ تب اس نے دونوں کے اندر انہیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کاکام الہام کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں ( ستاروں ) سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب ایک بہت زبردست، خوب جاننے والے کی تدبیر ہے۔ "
( سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) 41 آیات 9 تا 12)
قرآن کریم کی ان آیات سے بظاہر یہ تاثر ملا ہے کہ آسمان اور زمین 8 دنوں میں پیدا کیے گئے۔
اللہ تعالی اس آیت کے شروع ہی میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عبارت کے اس ٹکڑے میں موجود معلومات کو اس کی صداقت کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، درحقیقت وہ کفر پھیلانے میں دلچسپی رکھتے اور اس کی توحید کے منکر ہیں۔ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہی ہمیں بتا رہا ہے کہ بعض کفار ایسے بھی ہوں گے جو اس ظاہری تضاد کو غلط طور پر استعمال کریں گے۔
" ثُم " سے مراد " مزید برآں "
اگر آپ توجہ اور احتیاط کے ساتھ ان آیات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں زمین اور آسمان کی دو مختلف تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کو چھوڑ کر زمین دو دنوں میں پیدا کی گئی۔ اور 4 دنوں میں پہاڑوں کو زمین پر مضبوطی سے کھڑا کیا یگا اور زمین میں برکتیں رکھ دی گئیں اور نپے تلے انداز کے مطابق اس میں رزق مہیا کردیا گیا۔ لہذا آیات: 9 اور 10 کے مطابق پہاڑوں سمیت زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی، آیات: 11 اور 12 کہتی ہیں کہ مزید برآں دو دنوں میں آسمان پیدا کئے گئے ، گیارہویں آیت کے آغاز میں عربی کا لفظ " ثُم " استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب پھر یا مزید برآں ہے، قران کریم کے بعض تراجم میں " ثُم " کا مطلب پھر لکھا گیا ہے۔ اور اس سے بعد ازاں مراد لیا گیا ہے۔ اگر " ثُم " کا ترجمہ غلط طور پر " پھر " کیا جائے تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے کل ایام آٹھ قرار پائیں گے اور یہ بات دوسری قرآنی آیات سے متصادمم ہوگی جو یہ بتاتی ہے کہ آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیئے گئے ، علاوہ ازیں اس صورت میں یہ آیت قرآن کیرم کی سورۃ الانبیاء کی 30 ویں آیات سے بھی متصادم ہوگی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین و آسمان بیک وقت پیدا کئے گئے تھے۔
لہذا اس آیت میں لفظ " ثم " کا صحیح ترجمہ " مزید برآں " یا " اس کے ساتھ ساتھ " ہوگا۔
علامہ عبداللہ یوسف علی نے صحیح طور پر " ثؐم " کا ترجمہ " مزید برآں (Moeover) " کیا ہے جس سے واضح طور پر ییہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب پہاڑوں وغیرہ سمیت چھ دنوں مین زمین پیدا کی گئی تو بیک وقت اس کے ساتھ ہی دو دنوں میں آسمانن بھی پیدا کیئے گئے تھے، چنانچہ کل ایام تخلیق آٹھ نہیں چھ ہیں۔
فرض کیجیئے ایک معمات کہتا ہے کہ وہ 10 منزلہ عمارت اور اس کے گرد چار دیواری 6 ماہ میں تعمیر کردے گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمارت کا تہ خانہ 2 ماہ میں تعمیر کیا گیا اور دس منزلوں کی تعمیر نے 4 مہینے لیے اور جب بلڈنگ اور تہ خانہ بیک وقت تعمیر کیئے جاررہے تھے تو اس نے ان کے ساتھ ساتھ عمارت کی چار دیواری کی بھی تعمیر کردی جس میں دو ماہ لگے۔ اس میں پہلا اور دوسرا بیان باہم متصادم نہیں لیکن دوسرے بیان سے تعمیر کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ اس مثال میں سرت من البصرة الی بغداد و سرت الی الکوفة فی خمسةعشر یوماً کہ میں نے بصرہ سے بغداد تک کی منزل کو دس روز میں تمام کیا اور کوفہ تک پندرہ دن میں تمام کیا، چونکہ متصل ایک ہی قسم کا سفر تھا اس لیے مجموعی مدت لگائی گئی زبان نہ جاننے سے ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں.

aitraaz : 2 mashriq 2 magrib

اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 4
کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟
" قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ کہا گیا کہ اللہ دو مشرقوں اور مغربوں کا آقا و مالک ہے ۔ آپ کے نزدیک اس آیتِ قرآنی کی سائنسی تعبیر کیا ہے؟ "
قرآن کہتا ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے، قرآن کریم کی وہ آیت جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے :
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (١٧)
"( وہی ) مشرقین ( دو مشرق ) اور مغربین ( دو مغرب ) کا رب ہے۔ "
( سورۃ الرحمن 55 آیت 17)
عربی متن میں مشرق و مغرب کے الفاظ تثنیہ کی شکل میں استعمال کیئ گئے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے۔
مشرق و مغرب کی انتہا :
جغرافیے کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور لیکن اس کے طلوع ہونے کا مقام سارا سال تبدیل ہوتا رہتاہے۔ سال میں دو دن، 21 مارچ اور 23 ستمبر ، جو اعتدال ربیعی و خریفی (Equinox) کے نام سے معروف ہیں، ایسے ہیں جب سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے، یعنی خط استوا پر سفر کرتا ہے، باقی تمام دنوں میں عین مشرق سے قدرے شامل یا قدرے جنوب کی طرف ہٹ کر طلوع ہوتا ہے۔ موسم گرما کے دوران میں 22 جون کو سورج مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے ( خط سرطان پرسفر کرتا ہے ) تو موسم سرما میں بھی ایک خاص دن، یعنی 22 دسمبر کو سورج مشرق کی دوسری انتہا سے نکلتا ہے۔ ( خط جدی پر سفر کرتا ہے )۔ اس طرح سورج موسم گرما میں ( 22 جون ) اور موسم سرما میں ( 22 دسمبر ) کو مغرب میں دو مختلف انتہاؤں پر غروب ہوتا ہے۔
حاشیہ:
زمین خط استوا کا عرض بلد صفر ہے جو زمین کو دو برابر نسٖ کروں میں تقسیم کرتا ہے۔ خط استوا کے شمال میں خط سرطان کا عرض بلد 23.5 درجے شمالی ہے اور خط استوا کے جنوب میں خط جدی کا عرض بلد 23.5 درجے جنوبی ہے، سورج بظاہر انہی دو عرض بلاد کے درمیان نظر آتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمین کی محوری گردش ( لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کو گھومنے) کے دوران میں سال کے مختلف اوقات میں اس مختلف مقامات سورج کے براہ راست سامنے آتے ہیں۔ سال میں دو بار 21 مارچ اور 23 ستمبر کو سورج خط استوا پر عموداً جمکتا ہے ( بظاہر خط استوا پر سفر کرتا نظر آتا ہے ) جبکہ 22 جون کو سورج کی شعاعیں خط سرطان پر عموداً پڑتی ہیں اور 22 دسمبر کو سورج خط جدی پر عموداً چمکتا ہے ( محسن فارانی))۔ فطرت کا یہ مظاہرہ کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں یا کسی بلند و بالا عمارت سے سورج کے اس طلوع و غروب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگ دیکھیں گے کہ سورج گرمیوں میں 22 جون کو مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے تو سردوں میں 22 دسمبر کو ایک دوسری انتہا سے ، مختصر یہ کہ سارا سال سورج مشرق کے مختلف مقامات سے نکلتا ہے اور مغرب کے مختلف مقامات پر غروب ہوتا رہتا ہے۔
لہذا جب قرآن اللہ کا ذکر دو مشرقوں اور دو مغربوں کے رب کے طور پر کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مشرق و مغرب دوں کی دونوں انتہاؤں کا رب اور مالک ہے۔
تمام نقاطِ و مقامات کا مالک اللہ ہے :
اللہ تعالی مشرق و مٖغرب کے تمام نقاطِ و مقامات کا مالک ہے، عربی میں جمع کے صیغے کی دو اقسام ہیں۔ ایک جمع تثنیہ ہے، یعنی دو کی جمع اور دوسری قسم وہ ہے جس میں دو سے زیادہ کی جمع مراد ہوتی ہے۔ سورۃ رحمن کی 17 ویں آیت میں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں جن کا صیغہ جمع تثنیہ ہے اور ان سے مراد دو مشرق اور مغرب ہیں۔ قرآن کریم کی حسب ذیل آیت دیکھیئے۔
فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (٤٠)
" پس میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی "
(سورۃ المعارج 70 آیت 40)
اس میں مشرق اور مغرب کی جمع کے لیئے مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ جمع کے صیغے ہیں اور دو سے زیادہ کی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ذکر مشرق اور مغرب کے تمام مقامات کا مالک ہونے کے علاوہ مشرق و مغرب کے دو انتہائی مقامات کے رب اور 
مالک کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔

aitraaz : allah ne kafiro per muhr laga di ?


اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 8.
کفار کے دلون پر مہر لگنے کے بعد وہ قصور وار کیوں؟
" اگر اللہ نے کافروں، یعنی غیر مسلموں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو پھر انہیں اسلام قبول نہ کرنے کا قصور وار کیسے ٹہرایا جاسکتا ہے؟
اللہ تعالی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 6 اور 7 میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦)خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧)
" بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے، خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کیرں، بہرحال وہ ایمان لانے والے نہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ "
(سورۃ البقرہ 2 آیات 6 ا تا 7)
یہ آیات عام کفار کی طرف اشارہ نہیں کرتیں جو ایمان نہیں لائے۔ قرآن کریم میں ان کے لیئے (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی وہ لوگ جو حق کو رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نبئ کریم (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ کہ
" تم خبردار کرو یا نہ کرو، یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ عالی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں نہ ایمان لاتے ہیں، بلکہ معاملہ برعکس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کفار بہرصورت حق کو مسترد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں، وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اي لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئ ہے اور آنکھوں پر پردہ ہے۔ لہذا اس کا ذمہ دار اللہ نہیں بلکہ کفار خود ہیں۔
حاشیہ:
اللہ تعالٰی کی طرف گمراہ کرنے یا کی نسبت اس لیے درست نہیں کہ اللہ تعالی نے انبیاء و رسل بھیج کر اور آسمانوں سے کتابیں نازل فرما کر انسانوں کے لیے راہِ حق واضح کردی۔ اب جنہوں نے حق قبول کیا وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ٹھہرے اور جنہوں نے حق سے منہ موڑا اور انبیاء و رسل کو ستایا، اللہ نے انہیں گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور حق کی توفیق نہ دی۔
ایک مثال سے وضاحت :
فرض کیجیئے ایک تجربہ کار استاد آخری ( فائنل ) امتحانات سے قبل یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ فلاں طالب علم امتحان میں فیل ہوجائے گا، اس لیے کہ وہ بہت شریر ہے، سبق پر توجہ نہیں دیتا اور اپنے ہوم ورک بھی کرکے نہیں لاتا۔ اب اگر وہ امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اس کا قصور وار کسے ٹھہرایا جائےگا۔ استاد کو یا طالب علم کو؟ استاد کو صرف اس وجہ سے کہ استاد نے پیشگوئی کردی تھی۔ اس لیے اسے طالب علم کی ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح اللہ تعالی کو یہ بھی پیشگی علم ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے حق کو ٹھکرانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی اس لئے انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کر لیا تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ نے انسان کو نیکی و بدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی اس کو اختیار دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ اگر وہ نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے اور اگر وہ بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہو جاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی رمق باقی ہی نہیں رہتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور کیونکہ مہر لگانے کا قانون اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اس لئے اس قانون کے تحت مہر لگنے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے
مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے؟
اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک مقام پر فرمایا :
آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا
ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ) 27-النمل:14) 
اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کر دیا جن پر ان کے دل یقین کر چکے تھے
پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟
سورة الجاثية
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے
سورة الأعراف
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے
سورة المنافقون
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس برے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے
سورة الكهف
اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے اِسی طرح اللہ ہر متکر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے
سورة غافر﴿٣٥﴾
مہرکیوں اور کب لگتی ہے؟
انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ قوتیں عطا فرمائی ہیں۔
انسان کی ہدایت کےلئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے؟
اس سے بھی بدتر صورت حال ..............
ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آیت (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14؀) 83-المطففين:14)
(ترمذی، ابو اب التفسیر)
______________________
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔
_______________________
مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کیوں؟ ...
اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیوں کیا ....
جواب یہ ہے
کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہو جائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔
۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ) 61۔ الصف:5)
یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے
(وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ) 6۔ الانعام:110)
ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

Wednesday, September 28, 2016

QURAN ME HUROOF MAQTAAT KI TARTEEB JISKI WAJA SE MASHHUR SHAIHIR HAZRAT LUBAID BIN RABIH AAMRI NE ISLAM QABUL KIYA




یہ پوسٹ صاحب علم حضرات کے لیے ہے۔
حضرت لبید ؓ بن ربیعہ عامری کا شمار جاہلی عرب کے ان شعراء میں ہوتا ہے جو عزت اور شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے اور دنیا نے جنہیں امراء القیس، نابغہ ذبیانی، زہیر بن ابی سلمیٰ، عمرو بن کلثوم، اعشیٰ بن قیس اور طرفہ بن العبد جیسے نامور شعراء کی صف کا شاعر تسلیم کیا۔
ابو عقیل لبید بن ربیعہ ان سات شعراء (اصحاب المعلقات یا المذّہبات) میں سے ایک تھے جن کے قصائد زمانۂ جاہلیت میں اہلِ مکہ نے کعبہ میں آویزاں کررکھے تھے
ان کو اوائل عمر ہی سے شعر و شاعری سے لگائو تھا۔ عہدِ شباب میں ایک دفعہ اپنے چچائوں کے ساتھ نعمان ابوقابوس کے دربار میں گئے تو وہاں عظیم جاہلی شاعر نابغہ ذبیانی سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے ان کا کلام سن کر بہت داد دی اور کہا کہ تم بنی عامر اور بنو قیس کے تمام شاعروں سے بڑھ گئے۔ اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ جاہلی عرب کے شعراء کی صفِ اوّل میں آگئے اور تمام عالمِ عرب میں ان کی شہرت پھیل گئی۔ .
زمانۂ جاہلیت میں لبید اکثر مکے آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنے شاعرانہ کمالات کی بدولت وہ قریش کے نزدیک بڑی قدرومنزلت کے حامل تھے۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ 5 بعدِ بعثت میں ایک دفعہ وہ مکہ آئے تو اہلِ مکہ نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ اُس وقت تک شرفِ اسلام سے بہرہ ور نہیں ہوئے تھے اس لیے حسبِ سابق قریش کی محافلِ شعر و سخن کو گرمانے لگے۔ ایک دن ایسی ہی ایک محفل میں اپنا قصیدہ سنا رہے تھے، جب یہ مصرع پڑھا: الاکل شیًٔ ماخلا اللہ باطِل (خبردار رہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے) تو جلیل القدر صحابی حضرت عثمان بن مظعون، جو اس مجلس میں موجود تھے، بے اختیار پکار اٹھے: ’’تم نے سچ کہا۔‘‘ لیکن جب انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا: وکل نعیمٍ لامحالۃ زائلٌ (اور ہر نعمت لامحالہ زائل ہونے والی ہے) تو حضرت عثمان بن مظعون بول اٹھے: ’’یہ غلط ہے، جنت کی نعمتیں ابدی ہیں اور کبھی زائل نہ ہوں گی۔‘‘ اس پر سارے مجمع میں شور مچ گیا، لوگ حضرت عثمان بن مظعون کو برا بھلا کہنے لگے اور لبید سے یہ شعر دوبارہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے اس شعر کی تکرار کی تو حضرت عثمان نے بھی اپنے الفاظ کا اعادہ کیا۔ اس پر لبید سخت برافروختہ ہوئے اور قریش سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: ’’اے برادرانِ قریش، خدا کی قسم پہلے تمہاری مجلسوں کی یہ کیفیت نہ تھی، نہ ان میں بیٹھنا کسی کے لیے باعثِ ننگ و عار تھا اور نہ کبھی بدتمیزی نے ان میں راہ پائی تھی۔ اگر یہ شخص مجھے اسی طرح ٹوکتا رہا تو میں اپنا کلام سنا چکا۔‘‘ لبید کی باتیں سن کر مشرکین بھڑک اٹھے اور انہوں نے حضرت عثمان بن مظعون کو برا بھلا کہنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان پر ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔
۔ اکثر ارباب سِیَر نے لکھا ہے کہ ایمان لانے کے بعد حضرت لبید نے شاعری ترک کردی اور تادم ِمرگ ایک یا دو کے سوا کوئی شعر نہیں کہا، فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے شعر کے عوض سورۂ بقرہ اور آلِ عمران دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک مرتبہ حضرت لبید سے پوچھ بھیجا کہ آپ نے زمانۂ اسلام میں کون سے اشعار کہے۔ جب انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ شعر کے عوض مجھے اللہ نے بقرہ اور آلِ عمران دی ہیں
ابن قتیبہ نے ان کے سلیم الفطرت ہونے کے ثبوت میں یہ شعر پیش کیا ہے جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں کہا تھا وکل امری یومًا سیعلم سعیہ اذا کشفٍ عندالا لہ المحاصل (اور ہر انسان کو اپنی کوششوں کا نتیجہ اُس وقت معلوم ہو گا جب اس کے نتائج اللہ کے سامنے ظاہر ہوں گے) عرب کے فحول شعراء میں حضرت لبید بن ربیعہ کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ ایک دفعہ عرب کا نامور شاعر فرزوق ان کا یہ شعر سن کر بے اختیار سجدے میں گر گیا: رجلا السیول عن الطول کانھا زبر تجد متونھا اقلامھا (اور سیلاب نے ٹیلوں کو اس طرح مجلّیٰ کردیا گویا وہ کتاب کے صفحات ہیں جن کے متن کو قلم نے درست کیا) لوگوں نے فرزوق سے پوچھا: ’’یہ کیسا سجدہ ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’یہ سجدۂ شعر ہے، جس طرح لوگ قرآن کے مقاماتِ سجدہ کو جانتے ہیں، میں شاعری کے مقامِ سجدہ کو پہچانتا ہوں
لبید کے قبول اسلام کے تعلق سے بڑے بڑے دعوے پائے جاتے ہیں اور اسے قرآن کی فصاحت و بلاغت کے علاوہ کلام الٰہی ہونے کے ایک ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ جان ڈیون پورٹ کے مطابق لبید نے قرآن کی کچھ آیات کو کعبہ پر آویزاں دیکھا اور شرما کر اپنے قصیدے کو اتار لے گئے اور مسلمان ہوگئے۔ خلیفہ محمد حسن کہتے ہیں کہ‘‘ یہی وجہ تھی لبید جیسا صاحب طرز شاعر بے اختیار بول اٹھا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے اور فوراً مسلمان ہوگیا کیوں کہ بہ سبب اس کمال واقفیت اور مہارت کے جو فن فصاحت و بلاغت میں اسے حاصل تھی، وہ اس بات کو جانچنے کی قابلیت رکھتا تھا کہ انسان ایسا کلام کرسکتا ہے یا نہیں ۔’’(اعجاز التنزیل، صفحہ 503
حضرت لبید رض کے بارے میں مشہور ہے کہ حروف مقطعات ہی آپ کے قبول اسلام کی وجہ بنی
29 سورتوں میں 14 حروف مقطعات کا ذکر ھے ان چودہ حروف میں تمام اقسام کے حروف کی آدھی قسمیں ذکر ہیں
یہاں پہ چند اقسام کا ذکر ہے تاکہ حروف مقطعات کی اعجاز بیانی کو سمجھا جا سکے
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
صفات کے اعتبار سے حروف کی اقسام
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
مھموسۃ
وہ حروف جن کی ادائیگی کے وقت سانس نہ رُکتی ہو بلکہ ادائیگی بھی ہوتی رہے اور سانس بھی چلتی رہے
حروف مھموسۃ کل دس ہیں
ف ، ح ، ث ، ہ ، ش ، خ ، ص ، س ، ک ، ت
حروف مھموسہ میں سے جن پانچ حروف کو لیا گیا
(ح،ھ ، ص ، س ، ک ،)
کٓھٰیٰعٓصٓ
حم
طٰس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجہورہ
وہ حروف جن کی ادائیگی کے وقت سانس رک جاتی ہو
حروف مجہورہ کل 18 ہیں
ا ، ب ، ج ، د ، ذ ، ر ، ز ، ض ، ط ، ظ ، ع ، غ ، ق ، ل ، م ، ن ، و ، ی
حروف مجہورہ سے 9 حروف کو مقطعات میں لیا گیا ہے
(
ل ، ی، ق ، ط ، ع ، ا ، م ، ر ، ن )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدیدہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت آواز ان کے مخرج میں ایسی قوت کے ساتھ ٹھہرے کہ آواز بند ہو جائے
حروف شدیدہ آٹھ ہیں جن کا مجموعہ
اَجِدُک قَطبَت
ان میں سے مقطعات میں چار حروف کا ذکر ہے
جن کا مجموعہ ،اَقطک ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخوہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت آواز ان کے مخرج میں ایسے ضعیف کےساتھ ٹھہرے کہ آواز جاری رہے شدیدہ کے علاوہ باقی 20 حروف رخوہ ہیں
جن میں سے 10 کا مقطعات میں ذکر ھے
جن کا مجموعہ ،، حمس علی نصرہ ،، ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبقہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت زبان کا بیچ اوپر کے تالو سے ملصق ہو جاتا یے حروف مطبقہ کل چار ہیں
ص ، ض ، ط ، ظ
ان میں سے مقطعات میں 2 حروف کا زکر ہے
ص ، ط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف قلقلہ
ان حروف کے حالت سکون میں ادا کے وقت مخرج کو حرکت ہو جاتی ہے
حروف قلقہ پانچ جن کا مجموعہ ،، قطب جد ،، ہے
ان میں نصف اقل یعنی 2 کا زکر مقطعات میں ذکر ہے
ط ، ق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف لین
ایسے حروف جن کو مخرج سے ایسی نرمی کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ان پر مد کرنا چاہے تو کر سکے حروف لین دو ہیں
و ی
ان میں سے ی کا مقطعات میں ذکر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستعلیہ
وہ حروف جن کے ادا کرتے وقت جڑ زبان کی اوپر کےتالو کی طرف اُٹھ جاتی ہے حروف مستعلیہ کل سات ہیں جن کا مجموعہ ،، خص ضغط قظ ،، ہے
ان میں سے نصف اقل یعنی
تین کو لیا گیا ہے
ص ، ط ، ق

 ممتاز علی

ḥurūf muqaṭṭaʿāt ( حروف مقطعات) per mulhido ke aitraazaat


5.  فری فرام تھنکنگ۔ 
حروف مقطعات اور ملحدین کی چولیات۔۔۔۔!



محترمین لگتا ہے ملحدین نے سارے قرآن کو سمجھ لیا ہے اور اب حروف مقطعات پر بحث کرنے نکلے ہیں۔ صاحب فرماتے ہیں ، " مسلمان ان لفظوں کو بے معنی سمجھتے ہیں" ، لو جی یہ تھی پہلی چول جو ملحد نے ماری۔ میں نے اب تک اپنی زندگی میں کوئ بھی ایسا مسلمان نہیں دیکھا جو قرآن کے کسی بھی حرف کو "بے معنی" کہتا ہو۔ پھر دوسری آرا دیتے ہیں کہ یا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب صرف خدا اور رسول ﷺ کو معلوم ہے۔ چلیں اگر یہی سمجھ لیں تو کیا پھر بھی یہ حروف " بی معنی" بن جاتے ہیں؟؟ آگے ایک اور چول مارتے ہیں کہ ، " اس صورت میں یہ الفاظ ہمارے لیے مہمل کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی بے کار اور فضول"۔۔۔ یعنی جو چیز ملحد کی چھوٹی سی دو انچ کی عقل میں نہ آۓ وہ بے کار اور فضول ہو جاتی ہے؟؟؟ آگے مزید چول مارتے ہیں کہ ، " اور کفار نے ان لغو اور بے معنی الفاظ پر اعتراض نہیں کیے کہ یہ کیا فضول اور بے کار الفاظ ہیں"۔۔۔۔ یہاں ملحد کی سوچ اور فہم کا انداز دیکھیے کہ جب کفار نے ان پر اعتراض نہیں کیے ، وہ کفار جو اپنی فصاحت و بلاغت میں مشہور تھے، شاعری ان کے خون میں تھی، اپنی زبان پر فخر کرتے تھے، ایک ایک نکتے کی غلطی نکالنا جانتے تھے، انہوں نے ان پر اعتراض نہیں کیا اور آج کے جاہل ملحد جو عربی سے ہی بالکل نا آشنا ہیں وہ ان کو لغو اور بے کار کہ رہے ہیں۔

ملحد کی چول: 

ایک ملحد کہتے ہیں کہ الف لام میم ( الم) کا مطلب عرب کی دیویاں عزہ ، لات اور منات ہیں۔ یہی بات ملحد امجد حسین نے اپنے سرقے میں کہی تھی۔ 
مگر ان قرآن پر اعتراض کرنے والے "عربی دانوں " کو اتنا نہیں معلوم کہ "عزہ" ع سے ہوتا ہے نہ کہ الف سے۔۔۔۔! لیجیے یہ ہے معیار عربی کا۔۔۔ 
ہم ان حروف کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ 
اللہ اعلم بالمراد منھا ، کہ ان کی مراد اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ مگر یہ کلام الہی میں ہیں ہم ان کو کلام کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے بے کار اور فضول نہیں سمجھتے۔

حروف مقطعات کی بہترین تعبیر :

مختلف علماء کی طرف سے پیش کردہ تعبیرات میں سے مستند تعبیر حسب ذیل ہے جس کی تائید امام ابن کثیر، زمخشری اور ابن تیمیہ ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی طرف سے بھی کی گئی ہے:

انسانی جسم کا مرکب کائنات میں پائے جانے والے مختلف عناصر سے تیار کیا گیا ہے۔ مٹی اور گارا بھی انہی بنیادی عناصر کا آمیزہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوتا کہ انسان بالکل مٹی جیسا ہے، ہم سب سے ان عناصر تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں اور ہم ان میں چند گیلن پانی ڈال سکتے ہیں جس سے انسانی جسم تشکیل پاتا ہے مگر اس سے ہم زندگی تخلیق نہیں کرسکتے۔ ہمیں انسانی جسم میں شامل عناصر کا علم ہے لیکن اس کے باوجود جب ہم سے رازِ زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو ہمارے پاس اظہار حیرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح قرآن مجید ان لوگوں سے خطاب کرتا ہے جو اس کے اُلُوہی احکام کو نہیں مانتے۔ قرآن ان سے کہتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ ( جس پر عرب بہت فخر کرتے تھے ) یہ انہی حروف پر مشتمل ہے جنہیں عرب بڑی فصاحت سے اظہار و بیان کے لیے استعمال کرتے تھے۔ عرب اپنی زبان پر بہت نازاں تھے اور جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، عربی زبان اپنے عروج پر تھی، حروف مقطعات: الم، یس، حم وغیرہ کے استعمال سے ( انگریزی میں اے، بی، سی، ڈی کہ سکتے ہیں۔ ) قرآن بنی نوع انسان کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر انہیں اس کے مستند ہونے میں شک ہے تو وہ حسن فصاحت میں قرآن سے ملتی جلتی کم از کم ایک سورت ہی لکھ کر لے آئیں۔

ابتداء میں قرآن کریم تمام انسانوں اور جنوں کو چیلنج دیتا ہے کہ تم قرآن جیسا کلام لا کر دکھا دو، پھر مزید کہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کی امداد کرکے بھی یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ یہ چیلنج سورۃ الاسراء ( بنی اسرائیل ) کی 88 ویں آیت اور سورۃ طور کی 34 ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ چیلنج گیارھویں سورت ہود کی 13 ویں آیت میں دہرایا گیا اور فرمایا گیا کہ اس جیسی 10 سورتیں تیار کرکے دکھاؤ، بعد ازاں دسویں سورت یونس کی آیت 38 میں اس جیسی ایک سورت بنا لانے کو کہا گیا اور آخر کار سورۃ البقرہ کی ایات 23 اور 24 میں آسان ترین چیلنج دیا گیا:

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤)

" اور اگر تم اس ( کلام ) کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو، پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم کر بھی نہیں سکتے، تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، ( اور جو ) کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
(سورۃ البقرہ 2 آیت 23 تا 24)
دو ہنر مندوں کی مہارت کا تقابل کے لیے انہیں لازماً ایک ہی خام مال کے نمومے فراہم کئے جانے چاہیئیں اور پھر ایک ہی کام کے ذریعے سے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ عربی زبان کا خام مواد یہی حروف الم، یس وغیرہ ( جیسے انگریزی میں اے ، بی ، سی ، ڈی ) ہیں۔ قران کریم کی زبان کی معجزاتی فطرت صرف یہی نہیں کہ یہ کلام الہٰی ہے بلکہ اس کی عظمت اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ اگرچہ یہ انہی حروف سے وجود میں آئی ہے جن پر مشرکین فخر کرتے تھے۔ لیکن اس کے مقابلے کی کوئی عبارت پیش نہیں کی جاسکی۔

قرآن کلام الہی ہے:
نبی ﷺ امی تھے۔ ان الفاظ کو ادا کرنا اہل عرب کے لیے حیرانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیونکہ زبان تو سب بول لیتے ہیں مگر ان کے حروف تہجی کو اس فصاحت سے ادا کرنا نبی ﷺ کے لیے ان کو ناممکن سا لگتا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک ان پڑھ شخص پنجابی یا اردو تو بول لے گا مگر اس سے حروف تہجی سن لیں یا یہ کہ یہ الفاظ کیسے بنے اس کو کوئ پتا نہ ہو گا۔ کچھ خاص لوگوں کو صرف ان حروف کا پتا تھا۔ ان حروف کو ادا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کلام الہی ہے۔

قرآن مجید کا معجزاتی وصف :
عرب اپنی خطابت، فصاحت اور قدرت کلام کی وجہ سے معروف ہیں، جیسے ہمیں انسانی جسم کے ترکیبی عناصر معلوم ہیں اور ہم انہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کے حروف، جیسے: الم سے بھی ہم خوب واقف ہیں اور انہیں اکثر الفاظ بنانے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسانی جسم کے ترکیبی عناصر کا علم حاصل ہونے کے باوجود ، زندگی کی تخلیق ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح جن حروف پر قرآن مشتمل ہے ان کا علم رکھنے کے باوجود ہم قرآن کریم کی فصاحت اور حسن کلام پر گرفت حاصل نہیں کرسکتے، یوں قرآن بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کلامِ الہٰی ہے۔
اسی لیئے سورۃ بقرہ کے حروف مقطعات کے فوراً بعد جو آیت ہے اس میں معجزہ قرآن اور کلام الہی کی ثقاہت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔
الم (١) ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (٢ )
" یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ "
(سورۃ البقرہ آیات 1 تا 2)

قرآن کی عظمت:

ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ ابن تیمیہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت(الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا آیت(المص کتاب انزل الیک) الخ یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت (الر کتاب انزلنا الیک) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت(الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرماتا ہے آیت(حم تنزیل من الرحمن الرحیم) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت(حمعسق کذلک یوحی الیک) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالٰی غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔
از .
بینجامن  مہر  

Tuesday, September 27, 2016

kya quran umrao-qais shahir se chori kiya gaya ?

فیض, ابنِ انشاء اور سیّد امجد حسین
 :اعتراض
قرآن کی کچھ آیتیں  عرب کے ایک "مشہور" شاعر امراؤ القیس کی شاعری سے لی گئی ہیں  




تحریر : محمّد سلیم
فیض احمد فیض اردو شاعری میں ایک بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ۔ مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ فیض احمد فیض نے اپنے دو شعری مجموعے "بادِ صبا" اور "زنداں نامہ" ابنِ انشاء سے لکھوائے تھے ؟ یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض احمد فیض جیل میں تھے ۔ جیل میں فیض صاحب کو تمام سہولیات میسر تھیں مگر ان کو لکھنے کے لئے کاغذ اور قلم نہیں دیا جاتا تھا ۔ لہٰذا اپنے ادبی مستقبل کو تاریکی سے بچانے کے لئے انشاء جی کی خدمات لیں اور ان کے لکھے ہوئے دو مجموعے اپنے نام سے شائع کروا لئے ۔
آپ لوگ حیران ہو رہے ہیں مگر یہ بات خود ابنِ انشاء نے اپنی کتاب "خمارِ گندم" کے مضمون "فیض اور میں" میں بیان کی ہے ۔ لیکن اگر آپ "خمارِ گندم" کا سرورق ملاحضہ کریں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔ خمارِ گندم انشاء جی کی طنز و مزاح پہ مبنی کتاب ہے اور چونکہ یہ بات اس کتاب کے سرورق پہ لکھ دی گئی ہے لہٰذا کوئی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔
مگر اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو طنز و مزاح پہ مبنی کتابیں لکھتے ہیں مگر ان کے سرورق پہ یہ بات اجاگر کرنا بھول جاتے ہیں کہ یہ کتاب محض ہنسنے ہنسانے کے لئے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایسے ہی ایک صاحب سیّد امجد حسین ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں ایک کتاب "قرآن اور اس کے مصنفین" لکھی مگر سرورق پہ "طنز و مزاح" لکھنا بھول گئے ۔ اور ملحدوں کے کچھ بچوں نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ۔
ملحدوں کے گروپ میں ایک پوسٹ کی گئی ہے جس میں سیّد امجد حسین کی کتاب سے متاثر ہو کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کی کچھ آیتیں (شائد چار یا پانچ) عرب کے ایک "مشہور" شاعر امراؤ القیس کی شاعری سے لی گئی ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قرآن چار یا پانچ آیتوں پہ مبنی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات پر مشتمل ہے ۔ یعنی اگر اس کو مکمل کرنے والے نے شاعری ہی ادھر ادھر سے چرانی تھی تو کم از کم ہزار شاعروں کی شاعری سے پانچ پانچ مصرعے لئے جاتےتو قرآن مکمل ہوتا ۔ مگر پھر ایک مسئلہ اور ہے ۔ شاعری کی سمجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر شاعر کا رنگِ کلام مختلف ہوتا ہے ۔ خود انشاء جی اور فیض کے رنگِ کلام میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ مگر قرآن کا رنگِ کلام شروع سے آخر تک ایک جیسا ہی ہے ۔ کسی بھی مقام پہ اس کے پڑھنے والے کو یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک سے زیادہ مصنفین کا کلام ہے ۔ ملحدین کے لئے سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت کی کوئی ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جس پہ مکمل قرآن کو لکھنے کا سہرا باندھا جا سکے ۔ ورقہ بن نوفل کو قرآن کا مصنف کہا جاتا ہے تو مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل کی زندگی میں صرف سورہ علق کی چند ابتدائی آیات اور سورہ مدثر کی ابتدائی آیت نازل ہوئیں پھر وہ انتقال کر گئے ۔ اب ایک اور نام میں پہلی بار سن رہا ہوں کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے سے شائد تیس سال پہلے ایک شاعر ہوا کرتا تھا جس نے کچھ ایسے شعر لکھ رکھے تھے جو من و عن قرآن کی کچھ آیتوں میں موجود ہیں ۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اس شاعر کا نام پہلی بار سنا ہے ۔ اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا موصوف کے کچھ اشعار میں اور قرآن کی کچھ آیات میں حد درجے مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ان آیات پر بھی بات ہو گی ۔
امراؤ قیس کے بارے میں جو مبہم سی معلومات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق وہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ سال پہلے انتقال کر گیا ۔ کتنے سال پہلے ؟ اس میں مختلف آراء ہیں کچھ کے مطابق تیس سال پہلے کچھ کے مطابق چالیس سال پہلے ۔ امراؤ قیس پیدا کب ہوا اس پر بھی کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی ۔ اس بارے میں بھی مختلف آراء ہیں ۔ امراؤ قیس کا مذہب کیا تھا اس بارے میں بھی دو آراء ہیں ۔ ایک کے مطابق وہ بت پرست تھا دوسری کے مطابق عیسائی ۔ جو واحد بات یقین سے ملحدوں میں کہی جاتی ہے وہ یہ کہ مذکورہ شاعری اسی کی ہے اور مکمل محفوظ ہے ۔ کہاں محفوظ ہے ؟ مجھے کیا پتہ ۔ یہ تو معترضین ہی بتا سکتے ہیں ۔ میں تو آپ کو بس اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ جس مذہب سے امراؤ القیس کا تعلق بتایا جاتا ہے اس کی الہامی کتاب بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے روز تین بج کر پندرہ منٹ پر پھانسی دی گئی تھی ۔ اور یہ بات بائبل میں بقول عیسائیوں کے دو ہزار سال سے لکھی ہوئی ہے جب گھڑی بھی ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ بائبل کے جتنے بھی ایڈیشن موجود ہیں سب ابک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ مگر سب کے بارے میں یہی دعویٰ ہے کہ وہ ﷲ کی طرف سے دو ہزار سال پہلے نازل کئے گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ﷲ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کو محفوظ نہ رکھ سکے انہوں نے ایک عام شاعر کی شاعری کو چودہ سو سالوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ سبحان ﷲ ۔
جن آیات کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
قرآن( سوره القمر ايه 1 ):
"اقترب الساعة و انشق القمر "
ترجمہ:قیامت قریب آنپنچی اور چاند شق ہو گیا
قران(سورہ القمر ایه 29)
‘‘فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ۔’’
ترجمہ : تو ان۔لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے (اونٹنی کی ) کونچیں کاٹ۔ڈالیں ۔
قران(سورہ القمر ایه 31)
‘‘فَكَانُوا كَهَشِيمِ المُحْتَظِرِ .’’
ترجمہ : تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔
۔ (اس آیت کا مکمل ترجمہ : اور ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔)
قران(سوره الضحیٰ آیه 1،2)
‘‘وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى .’’
ترجمہ : سورج کی روشنی کی قسم ۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے ۔
قرآن( سوره الصافات ايه 61 ):
لمثل هذا فليعمل العاملون
ترجمہ : ایسی ہی نعمتوں کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں ۔
قرآن(سوره عبس ايه ١٧ ):
قتل الانسان ما أكفره
ترجمہ : انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے ۔
قران( سوره الزلزله ايه ١ و ٢ ):
اذا زلزلت الارض زلزالها، واخرجت الارض اثقالها
ترجمہ:جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی،
اور زمین اپنے (سب) بوجه نکال باہر پهینکے گی ۔
اب ذرا تھوڑی سی بات اس شاعر کے کردار کے حوالے سے بھی ہو جائے ۔ وکی پیڈیا اور دوسری ویب سائٹس پر مذکورہ شاعر کے متعلق جو معلومات دی گئی ہیں ان میں ایک قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ اس شاعر کو اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا ۔
کیوں نکال دیا تھا ؟
تمام ویب سائٹس پر اس کو گھر سے نکالنے کی تین وجوہات بتائی گئی ہیں ۔
1 ۔ شراب نوشی
2 ۔ لڑکیوں میں دلچسپی
3 ۔ شہوت انگیز شاعری (Erotic poetry(
زیادہ تر ویب سائٹس کے مطابق تیسری وجہ نے اس کو گھر سے نکلوانے میں زیادہ اہم کردار ادا کیا ۔
اب آجاتے ہیں اس کی شاعری کی طرف جس کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس شاعر کا کلام تھا جو قرآن نے چوری کر لیا ۔
"قیامت قریب آنپنچی اور چاند شق ہو گیا ۔
تو ان۔لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے (اونٹنی کی ) کونچیں کاٹ۔ڈالیں ۔
اور ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔ سورج کی روشنی کی قسم ۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے ۔ایسی ہی نعمتوں کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں ۔
انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے ۔
جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی،
اور زمین اپنے (سب) بوجه نکال باہر پهینکے گی ۔"
اس شاعری کو غور سے بار بار پڑھیں ۔ کیا آپ کو یہ کسی ایسے شخص کا کلام لگتا ہے جس کو اس کے باپ نے شراب نوشی اور شہوت انگیز شاعری کی بناء پر گھر سے نکال دیا تھا ؟ بلکہ مجھے یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا آپ کو یہ شاعری کسی بھی انسان کی لگتی ہے ؟
کوئی شرم ہوتی ہے ۔ کوئی حیا ہوتی ہے ۔ ملحدوں نے کیا عقل بیچ کر چنے کھا لئے ؟ افسوس اس چنے والے پر جس نے ان کو ان کی عقل کے بدلے چنے بھی عنایت کر دیئے ۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ملحد چولوں میں ترقی کر رہے ہیں ؟ پہلے چھوٹی چھوٹی چولیں مارتے تھے اب اتنی بڑی چول ؟ کیا چولوں میں ارتقاء ہو رہا ہے ؟ مرزا قادیانی کو بھی مشورہ دے آؤ ۔ وہ بھی دیوانِ غالب چوری کرے اور دعویٰ کر دے کہ یہ خدائی کلام مجھ پر نازل ہوا ہے ۔ ملحدوں نے اس پر بھی یقین کر لینا ہے ۔
لیتا ۔ نہ اگر دل تمہیں دیتا ۔ کوئی دم چین
کرتا ۔ جو نہ مرتا ۔ کوئی دن آہ و فغاں اور
غالب نے تو اسی قسم کی شاعری کی ہے ۔ کسی شاعر کا اتنا دماغ خواب نہیں ہوتا کہ اپنی شاعری میں دعویٰ کرے کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں میں نے کاٹیں یا ان پر جو چیخ کا عذاب آیا وہ میں لے کر آیا ۔ کم از کم مرزا غالب نے تو ایسا ایک بھی شعر نہیں کہا ۔
انشاء جی سے مدد لیجئے ۔
دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاء جی کیا مال لئے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ ؟
انشاء جی نے بھی ایسا کوئی شعر نہیں کہا جس میں لکھا ہو کہ ہلاک ہوا وہ شخص جس نے انکار کیا ۔
ابھی نو سو اٹھانوے شاعر اور ڈھونٹنے ہیں ۔ اقبال کی شاعری تو خود قرآن سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔
سچ کہا ہے کسی نے نے ۔گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھا عالم نہیں بن جاتا ۔ اگر ملحد امجد حسین یا اس کا شاگرد ترجمہ پڑھ لیتا تو شائد اس کو سمجھ آ جاتی کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو کیسے سکتا ہے ؟





عجیب لوگ ہیں یہ۔ ٹسڈل سے کاپی کرتے ہیں اور ٹسڈل ہی اپنی اگلی کتاب میں اپنے بیان سے مکر جاتا ہے اور اپنے الفاظ 
واپس لیتا ہے۔ دیکھیے اس کی اگلی کتاب میں سے اقتباس 

Page 47-49, "Appendix to Chapter II" quoted here in full:

It is sometimes said in the East at the present day that Muhammad not only adopted many of the ancient habits and religious rites of the heathen Arabs and incorporated them into Islam, but that he was also guilty of plagiarism in borrowing parts of certain verses of Imrau'l Qais, an ancient Arabic poet. These, it is asserted, may still be found in the Qur'an. I have even heard a story to the effect that one day when Fatimah, Muhammad's daughter, was reciting the verse "The Hour has come near and the Moon has split asunder" (Surah LIV., Al Qamar, 1), a daughter of the poet was present and said to her, "That is a verse from one of my father's poems, and your father has stolen it and pretended that he received it from God." This tale is probably false, for Imrau'l Qais died about the year 540 of the Christian era, while Muhammad was not born till A.D. 570, "the year of the Elephant."
In a lithographed edition of the Mu`allaqat, which I obtained in Persia, however, I found at the end of the whole volume certain Odes there attributed to Imrau'l Qais, though not recognized as his in any other edition of his poems which I have seen. In these pieces of doubtful authorship I found the verses quoted below.Though they contain some obvious blunders, I think it best to give them without correction. The passages marked with a line above them occur also in the Qur'an (Surah LIV., Al Qamar, 1, 29, 31, 46; Surah XCIII., Adduba', 1; Surah XXI., Al Anbiya 96; Surah XXXVII., As Saffat, 59), except that in some of the words there is a slight difference though the meaning is the same. It is clear therefore that there is some connexion between these lines and the similar verses of the Qur'an.



مگر یہ الحادی جھوٹ کے پلندے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔۔۔۔! کوئ شرم ہوتی ہے کوئ حیا ہوتی ہے۔



Bottom of Form