CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Tuesday, September 27, 2016

kya quran umrao-qais shahir se chori kiya gaya ?

فیض, ابنِ انشاء اور سیّد امجد حسین
 :اعتراض
قرآن کی کچھ آیتیں  عرب کے ایک "مشہور" شاعر امراؤ القیس کی شاعری سے لی گئی ہیں  




تحریر : محمّد سلیم
فیض احمد فیض اردو شاعری میں ایک بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ۔ مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ فیض احمد فیض نے اپنے دو شعری مجموعے "بادِ صبا" اور "زنداں نامہ" ابنِ انشاء سے لکھوائے تھے ؟ یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض احمد فیض جیل میں تھے ۔ جیل میں فیض صاحب کو تمام سہولیات میسر تھیں مگر ان کو لکھنے کے لئے کاغذ اور قلم نہیں دیا جاتا تھا ۔ لہٰذا اپنے ادبی مستقبل کو تاریکی سے بچانے کے لئے انشاء جی کی خدمات لیں اور ان کے لکھے ہوئے دو مجموعے اپنے نام سے شائع کروا لئے ۔
آپ لوگ حیران ہو رہے ہیں مگر یہ بات خود ابنِ انشاء نے اپنی کتاب "خمارِ گندم" کے مضمون "فیض اور میں" میں بیان کی ہے ۔ لیکن اگر آپ "خمارِ گندم" کا سرورق ملاحضہ کریں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔ خمارِ گندم انشاء جی کی طنز و مزاح پہ مبنی کتاب ہے اور چونکہ یہ بات اس کتاب کے سرورق پہ لکھ دی گئی ہے لہٰذا کوئی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔
مگر اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو طنز و مزاح پہ مبنی کتابیں لکھتے ہیں مگر ان کے سرورق پہ یہ بات اجاگر کرنا بھول جاتے ہیں کہ یہ کتاب محض ہنسنے ہنسانے کے لئے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایسے ہی ایک صاحب سیّد امجد حسین ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں ایک کتاب "قرآن اور اس کے مصنفین" لکھی مگر سرورق پہ "طنز و مزاح" لکھنا بھول گئے ۔ اور ملحدوں کے کچھ بچوں نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ۔
ملحدوں کے گروپ میں ایک پوسٹ کی گئی ہے جس میں سیّد امجد حسین کی کتاب سے متاثر ہو کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کی کچھ آیتیں (شائد چار یا پانچ) عرب کے ایک "مشہور" شاعر امراؤ القیس کی شاعری سے لی گئی ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قرآن چار یا پانچ آیتوں پہ مبنی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات پر مشتمل ہے ۔ یعنی اگر اس کو مکمل کرنے والے نے شاعری ہی ادھر ادھر سے چرانی تھی تو کم از کم ہزار شاعروں کی شاعری سے پانچ پانچ مصرعے لئے جاتےتو قرآن مکمل ہوتا ۔ مگر پھر ایک مسئلہ اور ہے ۔ شاعری کی سمجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر شاعر کا رنگِ کلام مختلف ہوتا ہے ۔ خود انشاء جی اور فیض کے رنگِ کلام میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ مگر قرآن کا رنگِ کلام شروع سے آخر تک ایک جیسا ہی ہے ۔ کسی بھی مقام پہ اس کے پڑھنے والے کو یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک سے زیادہ مصنفین کا کلام ہے ۔ ملحدین کے لئے سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت کی کوئی ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جس پہ مکمل قرآن کو لکھنے کا سہرا باندھا جا سکے ۔ ورقہ بن نوفل کو قرآن کا مصنف کہا جاتا ہے تو مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل کی زندگی میں صرف سورہ علق کی چند ابتدائی آیات اور سورہ مدثر کی ابتدائی آیت نازل ہوئیں پھر وہ انتقال کر گئے ۔ اب ایک اور نام میں پہلی بار سن رہا ہوں کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے سے شائد تیس سال پہلے ایک شاعر ہوا کرتا تھا جس نے کچھ ایسے شعر لکھ رکھے تھے جو من و عن قرآن کی کچھ آیتوں میں موجود ہیں ۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اس شاعر کا نام پہلی بار سنا ہے ۔ اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا موصوف کے کچھ اشعار میں اور قرآن کی کچھ آیات میں حد درجے مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ان آیات پر بھی بات ہو گی ۔
امراؤ قیس کے بارے میں جو مبہم سی معلومات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق وہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ سال پہلے انتقال کر گیا ۔ کتنے سال پہلے ؟ اس میں مختلف آراء ہیں کچھ کے مطابق تیس سال پہلے کچھ کے مطابق چالیس سال پہلے ۔ امراؤ قیس پیدا کب ہوا اس پر بھی کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی ۔ اس بارے میں بھی مختلف آراء ہیں ۔ امراؤ قیس کا مذہب کیا تھا اس بارے میں بھی دو آراء ہیں ۔ ایک کے مطابق وہ بت پرست تھا دوسری کے مطابق عیسائی ۔ جو واحد بات یقین سے ملحدوں میں کہی جاتی ہے وہ یہ کہ مذکورہ شاعری اسی کی ہے اور مکمل محفوظ ہے ۔ کہاں محفوظ ہے ؟ مجھے کیا پتہ ۔ یہ تو معترضین ہی بتا سکتے ہیں ۔ میں تو آپ کو بس اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ جس مذہب سے امراؤ القیس کا تعلق بتایا جاتا ہے اس کی الہامی کتاب بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے روز تین بج کر پندرہ منٹ پر پھانسی دی گئی تھی ۔ اور یہ بات بائبل میں بقول عیسائیوں کے دو ہزار سال سے لکھی ہوئی ہے جب گھڑی بھی ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ بائبل کے جتنے بھی ایڈیشن موجود ہیں سب ابک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ مگر سب کے بارے میں یہی دعویٰ ہے کہ وہ ﷲ کی طرف سے دو ہزار سال پہلے نازل کئے گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ﷲ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کو محفوظ نہ رکھ سکے انہوں نے ایک عام شاعر کی شاعری کو چودہ سو سالوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ سبحان ﷲ ۔
جن آیات کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
قرآن( سوره القمر ايه 1 ):
"اقترب الساعة و انشق القمر "
ترجمہ:قیامت قریب آنپنچی اور چاند شق ہو گیا
قران(سورہ القمر ایه 29)
‘‘فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ۔’’
ترجمہ : تو ان۔لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے (اونٹنی کی ) کونچیں کاٹ۔ڈالیں ۔
قران(سورہ القمر ایه 31)
‘‘فَكَانُوا كَهَشِيمِ المُحْتَظِرِ .’’
ترجمہ : تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔
۔ (اس آیت کا مکمل ترجمہ : اور ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔)
قران(سوره الضحیٰ آیه 1،2)
‘‘وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى .’’
ترجمہ : سورج کی روشنی کی قسم ۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے ۔
قرآن( سوره الصافات ايه 61 ):
لمثل هذا فليعمل العاملون
ترجمہ : ایسی ہی نعمتوں کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں ۔
قرآن(سوره عبس ايه ١٧ ):
قتل الانسان ما أكفره
ترجمہ : انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے ۔
قران( سوره الزلزله ايه ١ و ٢ ):
اذا زلزلت الارض زلزالها، واخرجت الارض اثقالها
ترجمہ:جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی،
اور زمین اپنے (سب) بوجه نکال باہر پهینکے گی ۔
اب ذرا تھوڑی سی بات اس شاعر کے کردار کے حوالے سے بھی ہو جائے ۔ وکی پیڈیا اور دوسری ویب سائٹس پر مذکورہ شاعر کے متعلق جو معلومات دی گئی ہیں ان میں ایک قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ اس شاعر کو اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا ۔
کیوں نکال دیا تھا ؟
تمام ویب سائٹس پر اس کو گھر سے نکالنے کی تین وجوہات بتائی گئی ہیں ۔
1 ۔ شراب نوشی
2 ۔ لڑکیوں میں دلچسپی
3 ۔ شہوت انگیز شاعری (Erotic poetry(
زیادہ تر ویب سائٹس کے مطابق تیسری وجہ نے اس کو گھر سے نکلوانے میں زیادہ اہم کردار ادا کیا ۔
اب آجاتے ہیں اس کی شاعری کی طرف جس کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس شاعر کا کلام تھا جو قرآن نے چوری کر لیا ۔
"قیامت قریب آنپنچی اور چاند شق ہو گیا ۔
تو ان۔لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے (اونٹنی کی ) کونچیں کاٹ۔ڈالیں ۔
اور ہم نے ان پر ایک چیخ بھیجی تو وہ ایسے ہو گئے جیسے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔ سورج کی روشنی کی قسم ۔ اور رات کی تاریکی کی جب وہ چھا جائے ۔ایسی ہی نعمتوں کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں ۔
انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے ۔
جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی،
اور زمین اپنے (سب) بوجه نکال باہر پهینکے گی ۔"
اس شاعری کو غور سے بار بار پڑھیں ۔ کیا آپ کو یہ کسی ایسے شخص کا کلام لگتا ہے جس کو اس کے باپ نے شراب نوشی اور شہوت انگیز شاعری کی بناء پر گھر سے نکال دیا تھا ؟ بلکہ مجھے یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا آپ کو یہ شاعری کسی بھی انسان کی لگتی ہے ؟
کوئی شرم ہوتی ہے ۔ کوئی حیا ہوتی ہے ۔ ملحدوں نے کیا عقل بیچ کر چنے کھا لئے ؟ افسوس اس چنے والے پر جس نے ان کو ان کی عقل کے بدلے چنے بھی عنایت کر دیئے ۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ملحد چولوں میں ترقی کر رہے ہیں ؟ پہلے چھوٹی چھوٹی چولیں مارتے تھے اب اتنی بڑی چول ؟ کیا چولوں میں ارتقاء ہو رہا ہے ؟ مرزا قادیانی کو بھی مشورہ دے آؤ ۔ وہ بھی دیوانِ غالب چوری کرے اور دعویٰ کر دے کہ یہ خدائی کلام مجھ پر نازل ہوا ہے ۔ ملحدوں نے اس پر بھی یقین کر لینا ہے ۔
لیتا ۔ نہ اگر دل تمہیں دیتا ۔ کوئی دم چین
کرتا ۔ جو نہ مرتا ۔ کوئی دن آہ و فغاں اور
غالب نے تو اسی قسم کی شاعری کی ہے ۔ کسی شاعر کا اتنا دماغ خواب نہیں ہوتا کہ اپنی شاعری میں دعویٰ کرے کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں میں نے کاٹیں یا ان پر جو چیخ کا عذاب آیا وہ میں لے کر آیا ۔ کم از کم مرزا غالب نے تو ایسا ایک بھی شعر نہیں کہا ۔
انشاء جی سے مدد لیجئے ۔
دل سی چیز کے گاہک ہوں گے دو یا ایک ہزار کے بیچ
انشاء جی کیا مال لئے بیٹھے ہو تم بازار کے بیچ ؟
انشاء جی نے بھی ایسا کوئی شعر نہیں کہا جس میں لکھا ہو کہ ہلاک ہوا وہ شخص جس نے انکار کیا ۔
ابھی نو سو اٹھانوے شاعر اور ڈھونٹنے ہیں ۔ اقبال کی شاعری تو خود قرآن سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔
سچ کہا ہے کسی نے نے ۔گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھا عالم نہیں بن جاتا ۔ اگر ملحد امجد حسین یا اس کا شاگرد ترجمہ پڑھ لیتا تو شائد اس کو سمجھ آ جاتی کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو کیسے سکتا ہے ؟





عجیب لوگ ہیں یہ۔ ٹسڈل سے کاپی کرتے ہیں اور ٹسڈل ہی اپنی اگلی کتاب میں اپنے بیان سے مکر جاتا ہے اور اپنے الفاظ 
واپس لیتا ہے۔ دیکھیے اس کی اگلی کتاب میں سے اقتباس 

Page 47-49, "Appendix to Chapter II" quoted here in full:

It is sometimes said in the East at the present day that Muhammad not only adopted many of the ancient habits and religious rites of the heathen Arabs and incorporated them into Islam, but that he was also guilty of plagiarism in borrowing parts of certain verses of Imrau'l Qais, an ancient Arabic poet. These, it is asserted, may still be found in the Qur'an. I have even heard a story to the effect that one day when Fatimah, Muhammad's daughter, was reciting the verse "The Hour has come near and the Moon has split asunder" (Surah LIV., Al Qamar, 1), a daughter of the poet was present and said to her, "That is a verse from one of my father's poems, and your father has stolen it and pretended that he received it from God." This tale is probably false, for Imrau'l Qais died about the year 540 of the Christian era, while Muhammad was not born till A.D. 570, "the year of the Elephant."
In a lithographed edition of the Mu`allaqat, which I obtained in Persia, however, I found at the end of the whole volume certain Odes there attributed to Imrau'l Qais, though not recognized as his in any other edition of his poems which I have seen. In these pieces of doubtful authorship I found the verses quoted below.Though they contain some obvious blunders, I think it best to give them without correction. The passages marked with a line above them occur also in the Qur'an (Surah LIV., Al Qamar, 1, 29, 31, 46; Surah XCIII., Adduba', 1; Surah XXI., Al Anbiya 96; Surah XXXVII., As Saffat, 59), except that in some of the words there is a slight difference though the meaning is the same. It is clear therefore that there is some connexion between these lines and the similar verses of the Qur'an.



مگر یہ الحادی جھوٹ کے پلندے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔۔۔۔! کوئ شرم ہوتی ہے کوئ حیا ہوتی ہے۔



Bottom of Form

No comments:

Post a Comment