CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Wednesday, September 28, 2016

ḥurūf muqaṭṭaʿāt ( حروف مقطعات) per mulhido ke aitraazaat


5.  فری فرام تھنکنگ۔ 
حروف مقطعات اور ملحدین کی چولیات۔۔۔۔!



محترمین لگتا ہے ملحدین نے سارے قرآن کو سمجھ لیا ہے اور اب حروف مقطعات پر بحث کرنے نکلے ہیں۔ صاحب فرماتے ہیں ، " مسلمان ان لفظوں کو بے معنی سمجھتے ہیں" ، لو جی یہ تھی پہلی چول جو ملحد نے ماری۔ میں نے اب تک اپنی زندگی میں کوئ بھی ایسا مسلمان نہیں دیکھا جو قرآن کے کسی بھی حرف کو "بے معنی" کہتا ہو۔ پھر دوسری آرا دیتے ہیں کہ یا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب صرف خدا اور رسول ﷺ کو معلوم ہے۔ چلیں اگر یہی سمجھ لیں تو کیا پھر بھی یہ حروف " بی معنی" بن جاتے ہیں؟؟ آگے ایک اور چول مارتے ہیں کہ ، " اس صورت میں یہ الفاظ ہمارے لیے مہمل کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی بے کار اور فضول"۔۔۔ یعنی جو چیز ملحد کی چھوٹی سی دو انچ کی عقل میں نہ آۓ وہ بے کار اور فضول ہو جاتی ہے؟؟؟ آگے مزید چول مارتے ہیں کہ ، " اور کفار نے ان لغو اور بے معنی الفاظ پر اعتراض نہیں کیے کہ یہ کیا فضول اور بے کار الفاظ ہیں"۔۔۔۔ یہاں ملحد کی سوچ اور فہم کا انداز دیکھیے کہ جب کفار نے ان پر اعتراض نہیں کیے ، وہ کفار جو اپنی فصاحت و بلاغت میں مشہور تھے، شاعری ان کے خون میں تھی، اپنی زبان پر فخر کرتے تھے، ایک ایک نکتے کی غلطی نکالنا جانتے تھے، انہوں نے ان پر اعتراض نہیں کیا اور آج کے جاہل ملحد جو عربی سے ہی بالکل نا آشنا ہیں وہ ان کو لغو اور بے کار کہ رہے ہیں۔

ملحد کی چول: 

ایک ملحد کہتے ہیں کہ الف لام میم ( الم) کا مطلب عرب کی دیویاں عزہ ، لات اور منات ہیں۔ یہی بات ملحد امجد حسین نے اپنے سرقے میں کہی تھی۔ 
مگر ان قرآن پر اعتراض کرنے والے "عربی دانوں " کو اتنا نہیں معلوم کہ "عزہ" ع سے ہوتا ہے نہ کہ الف سے۔۔۔۔! لیجیے یہ ہے معیار عربی کا۔۔۔ 
ہم ان حروف کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ 
اللہ اعلم بالمراد منھا ، کہ ان کی مراد اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ مگر یہ کلام الہی میں ہیں ہم ان کو کلام کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے بے کار اور فضول نہیں سمجھتے۔

حروف مقطعات کی بہترین تعبیر :

مختلف علماء کی طرف سے پیش کردہ تعبیرات میں سے مستند تعبیر حسب ذیل ہے جس کی تائید امام ابن کثیر، زمخشری اور ابن تیمیہ ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی طرف سے بھی کی گئی ہے:

انسانی جسم کا مرکب کائنات میں پائے جانے والے مختلف عناصر سے تیار کیا گیا ہے۔ مٹی اور گارا بھی انہی بنیادی عناصر کا آمیزہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوتا کہ انسان بالکل مٹی جیسا ہے، ہم سب سے ان عناصر تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں اور ہم ان میں چند گیلن پانی ڈال سکتے ہیں جس سے انسانی جسم تشکیل پاتا ہے مگر اس سے ہم زندگی تخلیق نہیں کرسکتے۔ ہمیں انسانی جسم میں شامل عناصر کا علم ہے لیکن اس کے باوجود جب ہم سے رازِ زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو ہمارے پاس اظہار حیرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح قرآن مجید ان لوگوں سے خطاب کرتا ہے جو اس کے اُلُوہی احکام کو نہیں مانتے۔ قرآن ان سے کہتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ ( جس پر عرب بہت فخر کرتے تھے ) یہ انہی حروف پر مشتمل ہے جنہیں عرب بڑی فصاحت سے اظہار و بیان کے لیے استعمال کرتے تھے۔ عرب اپنی زبان پر بہت نازاں تھے اور جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، عربی زبان اپنے عروج پر تھی، حروف مقطعات: الم، یس، حم وغیرہ کے استعمال سے ( انگریزی میں اے، بی، سی، ڈی کہ سکتے ہیں۔ ) قرآن بنی نوع انسان کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر انہیں اس کے مستند ہونے میں شک ہے تو وہ حسن فصاحت میں قرآن سے ملتی جلتی کم از کم ایک سورت ہی لکھ کر لے آئیں۔

ابتداء میں قرآن کریم تمام انسانوں اور جنوں کو چیلنج دیتا ہے کہ تم قرآن جیسا کلام لا کر دکھا دو، پھر مزید کہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کی امداد کرکے بھی یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ یہ چیلنج سورۃ الاسراء ( بنی اسرائیل ) کی 88 ویں آیت اور سورۃ طور کی 34 ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ چیلنج گیارھویں سورت ہود کی 13 ویں آیت میں دہرایا گیا اور فرمایا گیا کہ اس جیسی 10 سورتیں تیار کرکے دکھاؤ، بعد ازاں دسویں سورت یونس کی آیت 38 میں اس جیسی ایک سورت بنا لانے کو کہا گیا اور آخر کار سورۃ البقرہ کی ایات 23 اور 24 میں آسان ترین چیلنج دیا گیا:

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤)

" اور اگر تم اس ( کلام ) کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو، پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم کر بھی نہیں سکتے، تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، ( اور جو ) کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
(سورۃ البقرہ 2 آیت 23 تا 24)
دو ہنر مندوں کی مہارت کا تقابل کے لیے انہیں لازماً ایک ہی خام مال کے نمومے فراہم کئے جانے چاہیئیں اور پھر ایک ہی کام کے ذریعے سے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ عربی زبان کا خام مواد یہی حروف الم، یس وغیرہ ( جیسے انگریزی میں اے ، بی ، سی ، ڈی ) ہیں۔ قران کریم کی زبان کی معجزاتی فطرت صرف یہی نہیں کہ یہ کلام الہٰی ہے بلکہ اس کی عظمت اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ اگرچہ یہ انہی حروف سے وجود میں آئی ہے جن پر مشرکین فخر کرتے تھے۔ لیکن اس کے مقابلے کی کوئی عبارت پیش نہیں کی جاسکی۔

قرآن کلام الہی ہے:
نبی ﷺ امی تھے۔ ان الفاظ کو ادا کرنا اہل عرب کے لیے حیرانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیونکہ زبان تو سب بول لیتے ہیں مگر ان کے حروف تہجی کو اس فصاحت سے ادا کرنا نبی ﷺ کے لیے ان کو ناممکن سا لگتا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک ان پڑھ شخص پنجابی یا اردو تو بول لے گا مگر اس سے حروف تہجی سن لیں یا یہ کہ یہ الفاظ کیسے بنے اس کو کوئ پتا نہ ہو گا۔ کچھ خاص لوگوں کو صرف ان حروف کا پتا تھا۔ ان حروف کو ادا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کلام الہی ہے۔

قرآن مجید کا معجزاتی وصف :
عرب اپنی خطابت، فصاحت اور قدرت کلام کی وجہ سے معروف ہیں، جیسے ہمیں انسانی جسم کے ترکیبی عناصر معلوم ہیں اور ہم انہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کے حروف، جیسے: الم سے بھی ہم خوب واقف ہیں اور انہیں اکثر الفاظ بنانے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسانی جسم کے ترکیبی عناصر کا علم حاصل ہونے کے باوجود ، زندگی کی تخلیق ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح جن حروف پر قرآن مشتمل ہے ان کا علم رکھنے کے باوجود ہم قرآن کریم کی فصاحت اور حسن کلام پر گرفت حاصل نہیں کرسکتے، یوں قرآن بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کلامِ الہٰی ہے۔
اسی لیئے سورۃ بقرہ کے حروف مقطعات کے فوراً بعد جو آیت ہے اس میں معجزہ قرآن اور کلام الہی کی ثقاہت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔
الم (١) ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (٢ )
" یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ "
(سورۃ البقرہ آیات 1 تا 2)

قرآن کی عظمت:

ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ ابن تیمیہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت(الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا آیت(المص کتاب انزل الیک) الخ یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت (الر کتاب انزلنا الیک) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت(الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرماتا ہے آیت(حم تنزیل من الرحمن الرحیم) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت(حمعسق کذلک یوحی الیک) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالٰی غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔
از .
بینجامن  مہر  

No comments:

Post a Comment